کالم نگار

حضرت منٹو

عبداللہ شہاب

 

حضرت سعادت حسن منٹو کا شمار اردو کے بہت ہی متنازعہ قلم کاروں میں ہوتا ہے۔ کیوں ہوتا ہے اس کا مجھے علم نہیں ہے۔ کس نے کیا ہے تو اس کا جواب خاصا دلچسپ ہے۔ منٹو ایک ایسے معاشرے میں آنکھ کھولتا ہے جو خود فریبی، ریاکاری، بدتہذیبی میں گھرا ہوا ہے لیکن ان معاشرتی رویوں پر کوئی بات کرنے کو تیار نہیں۔ روز رات طوائفوں کے کوٹھوں پر محفلیں جماتی ہیں لیکن بولنے میں عار محسوس کرتے ہیں ہر انسان ایک الگ نفسیاتی کشمکش کا شکار ہے ہر کسی کو اپنی وہ عزت پیاری ہے جو دراصل ہے ہی نہیں جہاں عورت کو(آلہ جنس) سیکس ٹوائے سمجھا جاتا ہے، جہاں منافقت ہی سب سے بڑی شرافت ہے، جہاں دھوکہ ہی واحد منافع بخش کاروبار ہے۔ ان تمام رویوں کے ساتھ منٹو پروان چڑھتا ہے اور ایک ایک کو اپنے اندر جذب کرلیتا ہے۔ ان معاشرتی بے ہنگمی پر جب قلم اٹھانے کی نوبت آتی ہے تو بے دریع اور بے باکی قلم چلتا ہے دراصل وہ قلم نہیں بلکہ منافق معاشرے کے سینے میں ایک چاقو ہوتا ہے جس کو برداشت کرنے کے لیے بہت بڑے دل، عزم اور ہمت کی ضرورت ہوتی ہے جو ان لوگوں کے پاس تھی ہی نہیں۔ سرعام عورت کے کولہوں، سینوں، ٹانگوں کا سرعام ذکر کرنے والے اس وقت برا مان گئے جب منٹو نے اس عمل کا ، نتیجے کا اور معاشرے کی بری نفسیات کا ذکر کیا۔ وہ لوگ اس بات کا ذکر بہت تلذذ کے ساتھ کرتے تھے کہ کوٹھوں میں کیسا ناچا جاتا تھا لیکن جب منٹو نے کیوں ناچا جاتا ہے لکھا تو برا مان گئے، وہ لوگ جب تقیسم ہند کے موقع پر لوگوں کی عزت لُوٹنے کی داستانیں سناتے تھے تو کسی نے برا نہیں منایا جب منٹو نے یہ لکھا کہ عزت لوٹی کس نے؟ تو برا مان گئے۔

منٹو کو سمجھنے کے لیے تھوڑا الٹا، تھوڑا پُلٹا، تھوڑا ٹیڑھا، تھوڑا میڑھا، تھوڑا حقیقت پسند اور بس تھوڑا بے ترتیب ہونے کی ضرورت ہے معاشرے کی اجتماعی ذہنیت کے ساتھ منٹو نہ نظر آجائے گا ،نہ دل میں نہ دماغ میں۔کیونکہ منٹو ایک شخصیت کا نام نہیں ایک عہد کا نام ہے۔ منٹو ایک گستاخ تھا جو معاشرے سے ہٹ کر سوچا، انسانوں کا سوچا ۔ اگر منٹو خدا کا سوچا ہوتا، شرفاء کا سوچا ہوتا تو وہ آج "حضرت منٹؤ” ہوتا۔

منٹو کو یہ مقام کیوں نہیں ملا؟ کیوںکہ اُسے انسانوں سے محبت تھی اس نے خدا کے معاملے کو خدا پر چھوڑا اور انسانوں کے معاملے پر قلم اٹھایا کیونکہ اسے غلامی سے نفرت تھی، غلام بنانے والوں سے نفرت تھی، انسانوں کو کمتر سمجھنے والوں سے نفرت تھی، فرق سے نفرت تھی، تفریق کرنے والوں سے نفرت تھی، اور سب سے بڑھ کر منافقوں سے نفرت تھی دوغلوں سے نفرت تھی۔ اور اس کا یہ رویہ معاشرے کو ایک آنکھ نہ بھایا اور مرودو ٹھرا۔ حلانکہ وہ بہ آسانی "حضرت منٹو رح” کا لقب حاصل کرسکتا تھا جو نہیں کیا.

Advertisement

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button