اپر چترالتورکھوچترالیوں کی کامیابی

چترال کے سپوتوں کی اعلیٰ انتظامی عہدوں پر تعیناتی۔

چترال کے سپوتوں کی اعلیٰ انتظامی عہدوں پر تعیناتی۔

فیڈرل پبلک سروس کمیشن ایک ایسا ادارہ ہے جو حکومت کو انتظامی نظم و نسق بہتر انداز میں چلانے کے لیے افرادی قوت مہیا کرتا ہے۔ اہل اور باصلاحیت افراد کے چناؤ کے لیے یہ ادارہ ہر سال ملک بھر کے چاروں صوبوں میں مقابلے کے امتحانات منعقد کرتا ہے ان امتحانات میں ہر وہ شخص حصّہ لے سکتا ہے جس کی عمر تیس سال تک ہو اور اس کی تعلیمی قابلیت کم از گریجویشن ہو۔ اس میں تحریری امتحان ہی نہیں ہوتا بلکہ تحریری میں کامیاب ہونے والے امیدوار کا طبی، نفسیاتی اور زبانی امتحان بھی لیا جاتا ہے۔ مختصراً ان امتحانات کو سی ایس ایس کے امتحان نام سے جانا جاتا ہے۔ اس میں کامیاب ہونے والے امیدواروں کو مختلف محکموں کے اعلیٰ انتظامی عہدوں پر فائز کیا جاتا ہے
سال دو ہزار بیس کے سی ایس ایس کے امتحان میں شریک ہونے والے کل شرکاء کی تعداد اٹھارہ ہزار پانچ سو ترپن (18553) تھی ان میں سے تحریری امتحان میں اگرچہ تین سو چھیتر کامیاب ہوئے تھے تاہم زبانی امتحان میں بارہ امیدواروں کے ناکامیاب ہونے کی وجہ سے یہ تعداد تین سو چونسٹھ رہ گئی۔ یوں کامیابی کا تناسب تقریباً دو فیصد رہا۔ ان تین سو چونسٹھ کامیاب امیدواروں میں دو سو اکیس 221 وہ خوش نصیب ٹھہرے جنہیں مختلف کلیدی آسامیوں کے لیے ریکمنڈ کیا گیا۔
سی ایس ایس دو ہزار بیس کی خاص بات یہ رہی کہ اس میں چترال کے تین بیٹوں اور ایک بیٹی کے حصے میں بھی شاندار کامیابی آئی۔ یہ کامیابی ان چار خوش نصیبوں اور ان کے اہل ِ خانہ کے لیے ہی نہیں، پورے چترال کے لیے فخر و ناز کی باعث ہے۔ کامیاب ہونے والے ان خوش قسمتوں میں سے ایک کا تعلق کوشٹ، دوسرے کا لوٹ اویر، تیسری کا جنالی کوچ جبکہ چوتھے کا تورکھو (حال چترال ٹاؤن) سے ہے۔ کوشٹ سے تعلق رکھنے والے ریٹائرڈ ہیڈ ماسٹر امان اللہ ایوبی کا فرزند ارجمند سلیم ایوبی اس وقت پی ایم ایس آفیسر کے طور پر اپنی زمہ داریاں نبھا رہے ہیں۔ جبکہ جنالی کوچ کی سکونت پذیر شازیہ اسحاق محکمہء تعلیم میں قوم کی بچیوں کا مستقبل سنوارنے میں مگن ہیں۔ سابق ہیڈ ماسٹر محمد ایوب کا پسرِ رشید عمران الحق اسپین سے ایم فل کر رہے ہیں۔ سی ایس ایس کوالیفائیڈ امیدواروں کو ان کے نمبروں کے حساب سے بارہ مختلف گروپس میں سے کسی ایک گروپ میں اپوائنٹمنٹ کیا جاتا ہے۔ پی اے ایس یعنی پاکستان ایڈمنسٹریٹیو سروس اُن میں سرفہرست ہے۔ عمران الحق کو اس گروپ میں رکھا گیا ہے اس کے بعد پولیس سروس کا نمبر آتا ہے شازیہ اسحاق اس میں جگہ بنانے میں کامیاب ہوئی ہے۔ یہاں یہ بات ملحوظ ِ نظر رکھنی چاہیے کہ مالاکنڈ ڈویژن کی یہ پہلی خاتون ہے جسے پولیس سروس کے لیے ریکمنڈ کیا گیا ہے اس سے پہلے کبھی ایسا نہیں ہوا تھا۔
مذکورہ بالا چاروں حضرات کا سی ایس ایس امتحان کے چاروں اسٹپس میں بآسانی سرخ رو ہونا جہاں اللہ کی مہربانی اور ان کے والدین کی دعاؤں کا نتیجہ ہے وہاں یہ اس بات کا بھی غماز ہے کہ انہوں نے اس کامیابی کے حصول کے لیے انتھک جدوجہد کی ہے۔ جان گسل جدوجہد کیے بغیر "بحرِ سی ایس ایس” عبور کرنا محض ایک خواہش ہو سکتی ہے قابلِ تعبیر خواب نہیں۔ کسی بھی معاشرے میں یہی وہ لوگ ہوتے ہیں جو اپنی محنت اور ثمرہ ء محنت کے بل بوتے پر معاشرے کی آنکھ کا تارا ہوتے ہیں۔ اسی قسم کے محنتی نوجوانوں پر کوئی معاشرہ گردن اٹھا کر فخر کر سکتا ہے۔ دنیا میں کامیابی کے لیے اصل رول ماڈل بھی یہی نوجوان ہوتے ہیں۔ ہمارے ہاں راہ چلتے لوگوں کو پکڑ کر فخر چترال بنانے کا رواج جڑ پکڑ چکا ہے ورنہ حقیقت یہ ہے کہ یہی وہ لوگ ہوتے ہیں جن کے سینے پر فخر چترال کا تمغہ پوری طرح جچتا ہے۔
فیس بُک اور مختلف موبائل گیمز میں پھسے ہمارے نوجوانوں کو چاہیے کہ خواب ِ غفلت کی چادر اتار پھینک کر محنت کو اپنا اوڑھنا بچھونا بنائیں۔ کل ہم ان کے نام بھی یہاں لکھ کر اُن کے لیے بھی تعریفی کلمات لکھ سکیں۔

Advertisement

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button