کالم نگار

افعان جہاد۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔حقائق

فدا الرحمن

ڈائریکٹر شہید اسامہ وڑائچ کیرئیر اکیڈمی

 

ہمارے ہاں کچھ لبرل اور جمہوریت پسند مفکریں اور تجزیہ کار 80 کی دہائی کے افغان جنگ ( جسے افغان جہاد کا نام دیا جاتا ہے ) کا تجزیہ اس نقط نظر سے کرتے ہیں” کہ اس جنگ میں امریکی سامراج نے انتہائ چلاکی سے پاکستان کو اپنا آلہ کار بنا کر اپنے حریف سویت یونیں کے خلاف ایک ”پراکسی وار ” لڑی۔ سابق صدر جنرل ضیاالحق نے اس جنگ میں حصہ لے کر پاکستان کو کلاشنکوف کلچر کا گہوارہ بنا دیا ۔ طالبانائیزیشن کی بنیاد رکھ دی ۔اور آج پاکستان کو دہشت گردی ،انتہا پسندی اور بد امنی کی شکل میں اس کا ثمر مل رہا ہے ”۔ یہ بات بالکل درست ہے کہ افغان جنگ امریکا کے لئے گلوبل مفادات کے تحفظ کی جنگ تھی ۔یہی ا جنگ امریکا کو سرد جنگ کی مشکلات سے نکال کر دنیا کا واحد سپر پاور بنا دیا ۔ مگر امریکا کی اس جنگ میں بلا واسطہ شمولیت سے پہلے کی افغانستاں کے حالات پر نظر ڈالیں گے تو ہمیں افغان جہاد کی غیر جانبدارانہ تجزیہ کرنے میں آسانی ہو گی ۔
افغانستان کو خاص جغرافیہ کی وجہ سے تاریخ میں ہمیشہ اہم مقام حاصل رہا ہے۔ قدرتی وسائل سے محروم یہ غریب ترین ملک ہمیشہ سے بادشاہوں اور جنگجوں کی گزر گاہ رہا ہے۔ پہاڑوں اور ریگستانوں پر مشتمل یہ خشک ملک ہمیشہ ترقی اور خوشحالی سے محروم رہا ،کیونکہ ماضی کی دو بڑی طاقتیں برطانیہ اور سویت یونین اس ملک کو Buffer State رکھنا چاہتی تھیں ۔ افغانستان کے سابق بادشاہ ظاہر شاہ کی ناقص پالیسیوں کی وجہ سے ہے دنیا سے بلکل الگ تھلک رہا۔ ظاہر شاہ پاکستان کو تسلیم ہی نہیں کر رہا تھا ۔ پڑوسی مسلم ملک سے سرد مہری کی تمام حدیں پار کر دی تھی۔ ظاہر شاہ کی پاکستان دشمنی کو سویت یونین اور ہندوستان نے ہوا دی ۔
پھر حالات کچھ بدل گئے ۔ ظاہر شاہ کے خلاف داؤ د نے عالم بغاوت بلند کیا اور بسر اقتدار آگئے ۔داؤد کے افغان فوج کے ساتھ تعلقات اچھے نہیں تھے ۔ فوج کا ایک افیسر عبدالقادر ڈگروال نے داؤد کو قتل کر دیا ۔ اس کے بعد افغان فوج نے ”نور محمد ترکئی” کے زیر قیادت کمیونسٹ حکومت قائم کردی ۔ اس وقت کمیونسٹ انقلاب اپنے عروج پر تھا۔اسکے سامراجی عزائم نے پورے مسلم وسطی ایشیا کو ہڑپ کیا تھا ۔اس وقت افغانستان میں کمیونسٹوں کے دو گروپ تھے ۔ ایک” خلق پارٹی” جو پختونوں کی تھی ۔ دوسرا گروپ” پرچم پارٹی” فارسی بولنے والوں کی تھی۔ شروع میں یہ دونوں گروپ ایک دوسرے کے سخت مخالف تھے ۔لیکن بعد میں سویت یونین اور ہندوستاں کی کوششوں سے یہ دو گروپ متحد ہو کر نور محمد ترکئی(خلق پارٹی ) کی قیادت میں ایک مضبوط کمیونسٹ حکومت قائم کردیں ۔ کمیونسٹ حکومت کے آنے پر علماء کی قیادت میں افغانستاں کے لوگوں نے تحریک شروع کر دیں ۔ لیکن یہ تحریک ابتدائی مراحل میں تھی ۔بین الا قوامی امداد بھی بہت کم تھی ۔ بعد میں یہ تحریک جوں جوں زور پکڑتی گئی تو چند سرمایہ دار ممالک نے بھی اپنی مفاد ات کے لئے اس کی پشت پناہی شروع کردی ۔پاکستان نے افغان مہاجریں کے لئے اپنا دامن وسیع کیا ۔پاک سرزمین میں ان کو پناہ دیں ۔
موقع کو عنیمت جان کر مکروفریب کا بادشاہ پرچم پارٹی کا ”ببرک کارمل” ترکئی حکومت سے علیحدہ ہو کر سویت یونین میں جاکر بیٹھ گیا اور سویت یونین کو یہ باور کرنے میں کامیاب ہو گیا ،کہ نور محمد ترکئی کا ساتھی حفیظ اللہ امیں CIA سے مل چکا ہے، اور وہ خود اقتدار میں آکر افغانستان کو امریکی لابی میں لے جانے کے لئے منصوبہ بندی کر رہا ہے۔ہوا بھی یوں کہ چند روز بعد ہی حفیظ اللہ امیں نے نور محمد ترکئی کو قتل کرکے خود اقتدار پر قبضہ جمالیا ۔اب سویت یونین کے لئے حفیظ اللہ امین کا کردار مشکوک ہو چکا تھا ۔فوراً ہی سویت یونیں نے اپنی افواج افغانستان میں بھیج کر حفیظ اللہ امین کو قتل کرکے حکومت ببرک کارمل کے حوالے کردی ۔
سویت یونین کی فوج کے آنے کے بعد پوری دنیا میں ایک بھونچال آیا ۔خاص کرکے پاکستان کے لئے یہ ایک سخت اور مشکل وقت تھا ،کیونکہ اس وقت سویت یونیں کی کیفیت بھی ایک بد مست ہاتھی کی سی تھی ۔ سویت یونین وسطی ایشیا کی مسلم ریاستوں کو تنگی کا ناچ نچاکر اپنی غلامی میں لے رکھا تھا ۔ اب اپنی سرحدیں کابل اور جلال آباد تک لے آیا تھا ۔ یہ ”روسی ریچھ” بحر ہند کے گرم پانیوں تک رسائی حاصل کرنے اور پاکستانی ساحل سمندر تک جانے کی تدبیر کرنے لگا ۔پھر روسی ریچھ کا پڑوس میں بیٹھنا پاکستان کی سا لمیت کے لئے خطرہ بنا ہوا تھا۔ پس پاکستان ایک سال تک سوچ بچار کے بعد نتیجے پر پہنچا اور اپنی بقا ،سلامتی اور تحفظ کے لئے افغانستان میں گوریلا جنگ شروع کیا ۔ پاکستان امریکی ایما اور کسی بھی قسم کی لالچ اور دباؤ پر اس جنگ میں نہیں کودا تھا ۔ بلکہ اپنی دہلیز پر بیٹھا روسی ریچھ ، بد مست ہاتھی اور” زارشاہی کی جانشین ” جس نے کئی مسلم ریاستوں کو ہڑپ کیا تھا کو روکنے اور اپنے تحفظ کے لئے اس جنگ میں شامل ہوا تھا ۔ امریکا کے گلوبل مفادات تھے جن کی تحفظ کے لئے امریکہ نے ایک سنہری موقع جان کر اس جنگ میں پاکستان کے ساتھ تعاون کیا ۔ دنیا کے دوسرے اسلامی ممالک نے بھی مادی ، اخلاقی انفرادی قوت اور پیسہ دے کر امداد مہیا کیں۔ اس جنگ کے اہم کردار وہ پیادے (مجاہدیں ) تھے جنہوں نے معجزہ کردار دکھایا ۔ سویت یونین کو ٹکڑے ٹکڑے کردیا ۔ سویت یونین کھوکھلا اور معاشی طور پر دیوالیہ ہو گیا ۔ اسکا شیراز ہ بکھر گیا ۔
آخر میں یہ عرض کرنے کی جسارت کررہا ہوں! کہ افغان جہاد میں نہ کوئی ملک کسی دوسرے ملک کا آلہ کار بنا تھا ۔ نہ کوئی ملک” پر اکسی وارلڑی ”تھی ۔ اس جنگ میں سب کے اپنے اپنے مفادات تھے ۔ چاہے پاکستان ہو یا امریکا یا کوئی دوسرا ملک ۔ ہاں اس جنگ کے فوائد بیسویں صدی کی دونوں عالمی جنگوں سے کئی اعتبار سے نمایاں طور پر زیادہ ہیں ۔ اس جنگ کی کامیابی پر درجنوں ملک آزاد ہوئے ۔کسی ملک کو یا کسی نظرےئے کو کوئی نقصاں نہیں ہوا ۔وسظی ایشیاء میں جارجیا ، تاجکستان ، قزاکستان ، ازبکستان ،ترکمانستان ،ازر بائجان اور یورپ میں مشرقی یورپ میں ہنگری ، پولینڈ ،رومانیہ وغیرہ آزاد ہو گئے۔ دیوار برلن ٹوٹ کر جرمنی متحد ہو گیا ۔

Advertisement

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button