اپر چترالتاریخ اور ادبتعلیمثقافتسماجیسیاستکالم نگارلوئیر چترالنیا اضافہ

چترال میں قومیت پرستی ، لینڈ سیٹیلمنڈ اور نوجوان نسل

چترال کے لوگ اکثر اس بات کو بہت فخر سے دہراتے رہتے ہیں کہ چترالی  شائستہ اور مہذب لوگ ہیں۔ جتنا شرف مجھے دنیا دیکھنے کا حاصل ہوا ہے اس تجربے کی بنیاد پہ میں اس بات سے اتفاق ضرور کرتا ہوں لیکن کچھ ایسے مثائل ابھی بھی چترال میں پائے جاتے ہیں جو کسی مہذب معاشرے کو زیب نہیں دیتے۔  اب چونکہ ہم مہذب لوگ ہیں تو بندہ ناچیز اس امید سے اس عنوان پر قلم اٹھا رہا ہوں کہ مہذب لوگوں میں ہمیشہ خود کو تبدیل اور بہتر کرنے کا جذبہ رہتا ہے۔ میں یہ دعوی نہیں کررہا کہ جو کچھ میں لکھ رہا ہوں وہی صحیح ہے تاہم آج کل کے کچھ واقعات اور حالات کی روشنی میں میں آپ سب کو دعوتِ فکر ضرور دینا چاہتا ہوں۔

چترال میں قومیت پرستی یا نسل پرستی ایک بہت ہی مضبوط معاشرتی نظام کی حیثیت سے نافذ العمل ہے۔ تاریخ میں قومیت کو نہ صرف طاقت بلکہ انسانوں کو ایک دوسرے سے کمتر اور بہتر دیکھانے کیلیئے بھی استعمال کیا گیا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ شادی سے پہلے سب سے پہلے لڑکی اور لڑکے کی قومیت کا ضرور پوچھا جاتا ہے اور ہم سب نے اپنے اپنے خاندانوں میں ضرور کسی رشتے کو صرف اسی وجہ سے رد ہوتے ہوئے دیکھا ہے کہ قومیت کا ٓاپس میں رکھ رکھاو نہیں ہوتا۔ اسی طرح کے درجنوں مثالیں ہم سب سوچ سکتے ہیں کہ جس میں قومیت کی بنیاد پہ لوگوں میں تفریق  پیدا کیا جاتا ہے اور معاشرہ اس بات کو قبول بھی کرتا ہے۔  یہ صرف چترال کا حال نہیں ہے بلکہ ہر معاشرہ کئی غلط معاشرتی نظام سے گزر کر بہتری کی طرف ٓاتا ہے۔ آج کل ہم لوگ مغرب کے بڑے دلدادہ ہیں لیکن تاریخ میں دیکھیں تو یہاں بھی سیاہ فام لوگوں کو انسان تک نہیں سمجھا جاتا تھا اور اب جاکے اس کے خلاف لوگ آواز اٹھا رہے ہیں اور حالات خاصے بہتر ہوتے جارہے ہیں۔ لہذا ضروری بات یہ نہیں ہے کہ چترال میں یہ مسلہ رہا ہے بلکہ ضروری بات یہ ہے کہ اس نظام کو اب بدلنا ہے۔

چترال میں کوئی بھی مسلہ ہو، خاص کر کے خواتین کی آزادی کا معاملہ، تو سب فوراً سے مزہب سے دلیل دینے کی کوشش کرتے ہیں مگر ہم نے قومیت کے مسلے پہ کبھی اسلامی احکامات کی پیروی نہیں کی۔ قرآن مجید میں پہلے سے ہی یہ بات بیان کی گئی ہے کہ لوگوں کو رنگ و نسل کی بنیاد پہ کسی پہ کوئی برتری نہیں ہے اور نہ ہی خدا تعالی اتنے ظالم ہیں کہ وہ کسی کو ایک قومیت میں پیدا کریں جس میں وہ پہلے سے ہی دوسرے لوگوں سے کسی طرح بھی چھوٹے یا کمتر ہوں۔ چترال میں اسلام کے ٓانے کے بعد بہت سی تبدیلیاں آئیں لیکن قومیت کا معاملہ ابھی تک جاری ہے اور یہ سب مسلمانوں کیلئے قابلِ غور بات ہے کہ کیا ہم اپنے حساب سے اسلام کو مانتے ہیں اور صرف انہی چیزوں کیلیے اسلام کا حوالہ دیتے ہیں جس میں ہمارا فائدہ ہو؟  یہ بات کسی با شعور فرد کیلئے ماننا نا ممکن ہے کہ کسی مخصوص خاندان میں پیدا ہونے کی وجہ سے میں دوسروں لوگوں سے کسی بھی صورت بہتر ہوں اور ابھی تک کسی سائنسی تحقیق نے بھی ایسا کوئی نتیجہ نہیں دیکھایا ہے کہ جینیٹیکس کا انسانوں کی بڑائی پہ کوئی اثر ہوتا ہے۔  تو اب یہ سمجھنا ضروری ہے کہ نسل اور قومیت کا معاملہ صرف ایک سیاسی بیان یعنی ڈسکورس ہے۔ ہر دور میں جو لوگ طاقتور تھے انہوں نے دوسرے لوگوں کو قومیت کے جال میں بند کرکے ان پہ اپنی حکومت کی اور اسی عمل میں مزید لوگ قومیت میں شمار ہوتے گئے۔ میرا تو یہ بھی ماننا ہے کہ چترال میں اکثر قومیت کے لوگ قدرتی طور پر اسی خاندان میں پیدا نہیں ہوئے ہیں بلکہ بعد میں سیاسی، معاشی اور معاشرتی مقام  حاصل کرنے کیلیے کسی قومیت کا حصہ بنے ہیں یا بنائے گئے ہیں اور اس کی کئی مثالیں حال ہی میں انتخابات کے آیام میں ہم سب نے دیکھا ہے لہذا یہ کہنا بھی کسی حد تک ٹھیک نہیں ہے کہ دنین میں ایک شخص یارخون میں اسی قومیت کے شخص کے خاندان سے ہے، بہرحال اس پہ مزید تحقیق کی ضرورت ہے۔

اب اصل نکتے کی طرف آتے ہیں کہ آج کل چترال میں لینڈ سیٹلمنڈ کا مسلہ چل رہا ہے اور مجھے بہت خوشی ہے کہ چترال کے لوگ سڑکوں پہ نکل ٓائے ہیں کہ حکومت ہماری زمین ہم سے نہیں چھین سکتی۔ یہ بہت ہی عمدہ عمل ہے اور واقع میں اگر 97 فیصد زمین حکومت کے قبضے میں آجائے تو شاید ہمیں کسی دن ہمارے گھروں سے بھی نکال دیا جائے گا۔ اس میں کوئی دوسری رائے نہیں ہے کہ چترال کے کامنس یعنی چراگاہ، دریا اور خالی پڑےعلاقے عوام کے ہی ہیں اور عوام کے ہی رہنے چاہئے تا ہم کیا ہم عوام ابھی خود سے ان زمینوں کو صحیح سے استعمال کرسکتے ہیں اور سب کو ان زمینوں میں شراکت دار بنانے کیلئے تیار ہیں؟ اس سوال کو اٹھانا بہت ضروری ہے کیونکہ بہت سارے دوسرے عوامل کی طرح یہ زمینیں بھی قومیت کی بنیاد پہ ابھی تک استعمال کئے جا رہے ہیں۔ اب ہمارے پاس دو راستے ہیں  کہ یا تو سب زمین حکومت لے لے یا پھر ہم لوگ قومیت سے ہٹ کے ایک سول سوسائٹی کی بنیاد پہ اتفاق کرکے سب مل کے حکومت کے خلاف آواز اٹھائیں اور زمین ہمیں ملنے کی صورت میں سب کو اس میں حصہ دار قرار دیا جائے۔ بہت سے لوگوں کا یہ اعتراض ہوگا کہ ہمارے باپ دادا کے زمانے میں صرف کچھ خاندانوں کا ان زمینوں پہ حق تھا تو ان سے یہی التماس ہے کہ اب وہ دور نہیں رہا اور اب ہم نوجوان نسل سب کو ساتھ لیکے ٓاگے جانا چاہتے ہیں اور قومیت اور نسل پرستی جیسے بے معنی عناصر سے چھٹکارا حاصل کرنا چاہتے ہیں۔ تاریخی لحاظ سے تو چترال میں میتاری نظام بھی تھا تو کیا آج ہم اپنی آزادی کو مجروح کرکے پھر سے کسی بادشاہ کے سامنے سر بہ خم ہوں؟ لہذا اب ہمارے بڑوں سے گزارش ہے کہ یہ تاریخی لمحات ہیں اور اب اگر سب لوگوں کو انسان سمجھ کر اتفاق نہ کیا جائے تو اسی قومیت کی وجہ سے آنے والے نسلوں کے پاس رہنے کیلیے زمین نہیں بچے گا خواہ وہ کٹور قبیلے سے ہو، رضا ہو کہ زوندرے۔ اب ہمیں واقعی میں ایک مہذب معاشرے کی طرح اس طرح کی تبدیلی کو تسلیم کرنا ہے اور سب لوگوں کو ساتھ لیکے آگے چلنا ہے۔ ایک سول سوسائٹی ادارہ بنانا ہے جس میں ہر گاوں کی نمائندگی ہو اور پھر جاکے ہم مطالبات پیش کریں کی ہم کس طرح ان زمینوں کا خیال رکھیں گے۔ یہ ایک الگ گفتگو ہے کہ ایک نئے نظام میں چراگاہ یا دریا کے ٓاس پاس کے علاقے ہم ایک کمیونٹی کی حیثیت سے کیسے استعمال کریں گے اور اس پہ ہمیں کئی دفعہ ساتھ بیٹھنا بھی ہوگا لیکن ابھی صرف ہم سب نے نوجوان نسل کا سوچتے ہوئے یہ فیصلہ کرنا ہے کہ ہم قومیت کی بنیاد پہ نہیں بلکہ چترالی ہونے کی حیثیت سے سب لوگوں کو شامل کرکے یہ لڑائی لڑیں گے اور یہ کیس جیتنے کی صورت میں پرانے نظام کی جگہ ایک ایسا نظام متعارف کریں گے کہ جس میں سب لوگوں کا حق ہو۔ یہ بہت ہی ٓاسان کام ہے لیکن ضرورت اس امر کی ہے کہ ہم دل و دماغ سے سوچیں اور فیصلہ کریں کہ اگر ہم مہذب لوگ ہیں تو  کیا واقع ہمیں قومیت کی ضرورت ہے؟

Advertisement

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button