سیاستکالم نگار

جماعت اسلامی کی تیکھی سیاست

نثار احمد

ترش و شیرین

 

 

ویک اینڈ پر فیس بُک میں داخل ہونے کے بعد بہت سارا وقت یہ سمجھنے میں صرف ہوتا ہے کہ صارفین میں گزشتہ ہفتے کا گرما گرم موضوع کونسا رہا ہے۔ موبائل کی اسکرین پر کافی دیر تک شہادت کی انگلی پھیرنے کا نتیجہ یہ رہا کہ اس والے ہفتے میں اپوزیشن لیڈر برائے سینٹ کے لیے جماعت اسلامی کی طرف سے یوسف رضا گیلانی کی حمایت موضوع ِ تنقید رہی ہے۔ سوشل میڈیا میں تمام سیاسی جماعتوں کے کارکنان نے بااستثنائے پیپلز پارٹی جماعت اسلامی کو سخت سست کہا ہے۔
جماعت کی سیاست اور سیاسی فیصلوں کا تنقید کی زد میں رہنا نئی بات ہے اور نہ ہی یہ پہلی دفعہ ہو رہا ہے۔ وجہ خود جماعت اسلامی کا نرالا طرزِ سیاست ہے۔ یہ بات حقیقت ہے کہ جماعت اسلامی کی سیاست ایک ایسی پہیلی ہے جسے بوجھنا کبھی کبھار خود جماعت کے شعوری کارکنوں کے لیے بھی جوئے شیر لانے سے بھی زیادہ مشکل ہوتا ہے۔ زیادہ دور نہیں، دَہائی سوا دہائی پیچھے کے تاریخی حقائق کا تحلیل و تجزیہ بتاتا ہے کہ جماعت اسلامی نے یہ کہہ کر انتخابات کا بائیکاٹ بھی کیا کہ سیاست دان کرپٹ اور چور ہیں۔ بے رحم احتساب سے پہلے انتخابات کا کوئی فائدہ نہیں۔ پھر اگلے انتخابات میں انہی "چور اور کرپٹ” سیاست دانوں کے قدم بقدم جماعت اسلامی نے انتخابات میں بھرپور حصّہ بھی لیا ہے۔ اسی جماعت اسلامی نے کبھی ایک سیاسی جماعت سے انتخابی اتحاد کر کے باقی جماعتوں کو چور اور کرپٹ کہا تو کبھی اپنے سابق پاک پوتر اتحادی کو کرپٹ اور ناقابلِ اعتبار قرار دے کر دوسری سیاسی جماعت سے راہ و رسم بڑھالی۔ کبھی مقتدرہ کی سرپرستی میں پنپنے والی آئی جے آئی میں فعال کردار نبھایا تو کبھی اسلامک جمہوری فرنٹ بنا کر "ظالمو! قاضی آ رہا ہے” کا نعرہ بلند کر کے خوب دھمال ڈالا۔ یہ شاید آئی جے آئی کا اثر تھا یا جنرل ضیاء کے کیبنٹ میں سرکاری مسلم لیگ کے ساتھ کام کرنے کا نتیجہ، کہ جماعت اسلامی عرصے تک "نون لیگ” کے پلڑے میں اپنا وزن ڈال کر تب کے اسٹبلشمنٹ کے مبغوض علیہ پیپلز پارٹی کو اچھوت سمجھتی رہی۔ یہ سلسلہ تب تک چلا جب تک نون لیگ بری طرح اسٹبلشمنٹ کے زیر عتاب نہیں آئی۔ پھر ایک دن اچانک جماعت اسلامی کو بھی احساسِ زیاں ہو گیا ۔ یوں اسٹبلشمنٹ کے مردود ِ نظر نون لیگ سے فاصلے بڑھا کر پہلے جے یو آئی پھر تحریکِ انصاف کے سنگ اپنی سیاست آگے گھسیٹنے میں عافیت جانی۔ اطمینان یہاں بھی نہیں ہوا۔ نہ صرف یکے بعد دیگرے دونوں جماعتوں کو ناقابلِ اعتبار گردانا گیا بلکہ جماعت کو حصّہ بقدر جثہ نہ دینے کا الزام اتحادیوں پر دھر کر "اتحادی سیاست” پر تین حرف بیچ کر آئندہ کے لیے بہرصورت اپنے جھنڈے تلے اپنے انتخابی نشان پر سیاست کرنے کا عہد کیا گیا۔ اللہ کرے کہ جماعت اس حکمتِ عملی پر قائم رہے لیکن معلوم نہیں کہ جماعت کب تک اس تنہا پرواز والی پالیسی پر قائم رہ سکتی ہے۔
جماعت اسلامی کی طرح رنگ برنگ کی سیاست باقی معاصر جماعتیں بھی کرتی ہیں۔ لیکن تنقید کی زد میں جماعت اسلامی کا رہنا بلاوجہ نہیں ہے۔ وجہ یا تو خود جماعت اسلامی کا ایسا تاثر ہے کہ معاشرے کے صالح افراد پر مشتمل ہونے کے ناتے جماعت اسلامی باقی سیاسی جماعتوں سے فائق و بالا ہے لہذا اسے باقی گندی سیاسی جماعتوں کی صف میں شمار نہ کیا جائے۔ یا پھر یہ کہ لوگوں کی جماعت سے بہت زیادہ توقعات ہیں۔ اسی لیے جماعت کے حوالے سے سیاسی مخالفین چھوٹی چھوٹی باتوں پر بھی آسمان سر پر اٹھا لیتے ہیں۔
اپوزیشن لیڈر کے لیے یوسف رضا گیلانی کی حمایت کی مثال سامنے ہے۔ پیپلز پارٹی کا اعلیٰ سطحی وفد اپوزیشن لیڈر کے لیے حمایت حاصل کرنے جماعت کے ہیڈ کوارٹر منصورہ (لاہور) گیا۔ جماعت اسلامی نے وہی کیا جو ایک سیاسی جماعت ہونے کے ناتے اُسے کرنا چاہیے تھا۔ ایک بے ضرر ووٹ کے لیے ایک بڑی سیاسی پارٹی کا وفد آپ کے پاس آ جائے تو سیاسی روایت کا تقاضا یہی بنتا ہے کہ اُسے مایوس نہ کیا جائے۔ اس بے ضرر حمایت کو لے کر مخالفین کی طرف سے رائی کا پہاڑ ہی نہیں کھڑا کیا گیا بلکہ بلاول کی قیادت میں پیپلز پارٹی کے منصورہ یاترا کو بھی سخت لعن و ملامت کی چھلنی سے گزارا گیا۔ حالانکہ سیاسی جماعتوں کی بیٹھک نارمل سیاسی رُوٹین کا جزوِ لاینفک ہوتا ہے اس میں ایسی کوئی بات نہیں ہوتی جسے بنیاد بنا کر شور ڈالا جائے۔
ہمارے ملک میں ایک بڑا مسئلہ یہ بھی ہے کہ عوام اور کسی بھی پارٹی کے سپورٹرز اپنے ذہن کے مطابق پارٹی چلانے کے لیے قیادت پر دباؤ ڈالتے ہیں نتیجتاً پارٹی قائدین بھی خواندہ و نیم خواندہ سپورٹرز کا تیور و مزاج سامنے رکھ کر سیاسی معاملات چلانے میں عافیت محسوس کرتے ہیں۔ ایسے میں وہ پارٹی کارکنوں کی رہنمائی کرنے کے بجائے خود کارکنوں کی رہنمائی میں ہی چلتے دکھائی دیتے ہیں۔ اس اُلٹے کام کا لازمی نتیجہ یہی نکلتا ہے کہ پارٹی قیادت اپنے سپورٹرز کے منشا کے برخلاف درست قدم اُٹھانے سے پہلے سو دفعہ سوچتی ہے۔ یہ ایسا عمل ہے کہ اس کی جتنی حوصلہ شکنی کی جائے،کم ہے۔
اگر جماعت اسلامی کی حمایت حاصل کرنے کے لیے پی ڈی ایم کی قیادت بلاول زرداری سے پہلے منصورہ پہنچتی تو قرین قیاس یہی تھا کہ جماعت کی طرف مایوسی نہیں ملتی۔ ایک طرف جماعت اسلامی کی حمایت لینے کے لیے خود وہاں جانے کو ضروری بھی نہ سمجھیں دوسری طرف پیپلز پارٹی والے جا کر حمایت حاصل کریں تو آسمان وزمین کے قلابے ملا دیے جائیں، یہ روش غلط ہی نہیں، انتہائی دوغلا اور احمقانہ بھی ہے۔
بات وہی کہ دوسروں کو ہی نہیں، خود جماعت اسلامی کو بھی اپنے سیاسی رویّوں میں تبدیلی لانے اور ان میں تسلسل و استحکام پیدا کرنے کی ضرورت ہے۔ پاکستان کے کونے کونے میں اپنا مضبوط سیٹ اپ، تنظیمی اسٹرکچر اور عالیشان دفترات و مراکز رکھنے والی جماعت اسلامی بلاشبہ مملکت خداداد کی سب سے منظّم اور فعال سیاسی پارٹی ہے۔ جماعت اسلامی ہم خیال لوگوں کا ہجوم نہیں، بلکہ ٹف مراحل سے گزر اس کا حصہ بننے والوں کارکنوں کی مربوط و سلیقہ مند جماعت ہے۔ معاشرے کے قابل، باصلاحیت اور تعلیم یافتہ افراد سے لیس پارٹی اگر آئے دن سیاسی بساط پر سکڑتی، سمٹتی اور محدود ہوتی جا رہی ہے تو ضرور کہیں نہ کہیں گڑبڑ ہے۔ اس گڑبڑ کو دریافت کرنے اور مداوا کرنے کی ضرورت ہے۔
ایک زمانہ وہ بھی تھا جب جماعت اسلامی ملک بھر کی سیاسی جماعتوں کو "رجال” فراہم کرتی تھی۔ جماعت کے تربیت یافتہ حضرات مختلف سیاسی پارٹیوں میں کلیدی پوزیشنز میں ہوتے تھے، جماعت کی ذیلی تنظیم اسلامی جمعیت طلبا سیاسی تربیت کے لیے ایک نرسری اور تربیت گاہ کا کردار نبھاتی تھی اور آج ایک دور یہ ہے کہ خود جماعت کو بھی ڈھنگ کی سیاسی قیادت نہیں مل رہی۔ اس پر جماعت کو تھوڑا نہیں، بہت سوچنے کی بھی ضرورت ہے اور اپنی پالیسیوں کے اندر تسلسل و توازن پیدا کرنے کی بھی ضرورت ہے۔

Advertisement

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button