خبریںصحت

تبدیلی سرکار سے نرسنگ نظام میں تبدیلی کی امید ، پروفیشنلز لبیک کہیے۔

ناصر علی شاہ

کالم نگار ,چمرکھن

دنیا بھر میں نرسنگ پروفیش کو عزت و احترام حاصل ہے کیونکہ یہی نرسز چوبیس گھنٹہ مریضوں کیساتھ ہوتے ہیں اور اپنی بساط سے زیادہ مریضوں کی خدمت میں پیش پیش رہتے ہیں. پاکستان میں ماسٹر و پی ایچ ڈیز نرسز ہونے کے باوجود حقارت کی نگاہ سے دیکھا جاتا کیونکہ ہمارا کوئی نظام نہیں, جس کی وجہ سے نہ صرف پروفیشنلز کو چلنجز درپیش ہیں بلکہ مریضوں کو بھی ان کے حقوق کے مطابق علاج میسر نہیں کیونکہ ہمارے ہاتھ باندھ کر انجکش تک محدود کیا جاچکا ہے. قدرتی آفات ہو یا کورونا وائرس نرسز کا کردار صف اول رہی ہے کورونا وائرس کا پہلا کیس, بغیر کسی پروٹیکشن کیٹس کے مریض کو ڈیل کرنے والے یہی نرسز تھے مگر ضرورت دفعہ ہوتے ہی خدمات و اہمیت کو بھول جاتے ہیں ہیرو کے نعرے لگوانے والے زیرو بنا دیتے ہیں چاہئے تو یہ تھا کہ اہمیت کا اندازہ لگا کر نظام بدل دیتے, محرومیوں کا اذالہ کرتے, داد رسی ہوتی مگر نہیں.
اب پروفیش کی بالادستی, خدمت انسانیت کو مدنظر رکھتے ہوئے نرسز کے لئے علیحدہ ڈائیریکٹوریٹ وقت کا تقاضا بن چکا ہے سندھ اور پنجاپ میں نرسز کا علیحدہ ڈائیریکٹوریٹ بن سکتا ہے تو خیبر پختونخواہ میں کیوں نہیں؟ نرسز کے مسائل نرسز ہی بہتر انداز میں حکومت تک پہنچا سکتے ہیں.نرسز مسائل سے دوچار ہیں اسی نظام میں 7 سے 8 مہنے نرسز کو ڈی جی ہیلتھ سروسز کا چکر کاٹ کر خوار ہونا پڑتا ہے, اور طول دینا ہی رشوت کے راستے ہموار کردیتی ہے.
پیشے کے اندر ڈسپلین برقرار رکھنے کے لئے سروس سٹرکچر کا اہم کردار ہے اور ہر ادارے کے اندر نظام موجود ہے. نرسز کو یومیہ اجرت تک محدود کرنے کی مضموم کوشش پیشے کو اندھیروں کی طرف دھکیلنے کے مترادف ہے جس پر آواز اٹھانا لازم و ملزوم اور قانون کے مطابق ہے. پوری دنیا میں پرائمری کلینک نرسز کے ذمہ ہیں اور پاکستان میں بھی آغا خان ہیلتھ سروس نے آر ایچ سی اور بی ایچ یوز بنا کر نرسز کے حوالے کرچکے ہیں جن سے مریضوں کو فائدے مل رہا ہے گورنمنٹ کو بھی اسی طریقہ کار کو اپناتے ہوئے بی ایچ یوز آر ایچ سیز کو محدود پریکٹیسز کی اجازت کے ساتھ نرسز کے حوالے کرنی چاہئے تاکہ مریضوں کو فائدہ مل سکے اور ہاسپتالوں میں مریضوں کا رش کم ہوسکے.
ڈبلیو ایچ او کے مطابق نرسنگ مخصوص مہارت کے ساتھ علیحدہ پیشہ ہے اس سٹیٹمنگ کا لحاظ رکھتے ہوئے نرسنگ پروفیش کو الگ کیڈر تسلیم کرکے باقاعدہ نوٹیفیکشن جاری کرنا وقت کا تقاضا ہے..
ہمارے مطالبات جائز ہیں اور آئین و قانون کے مطابق ہیں ہم ریاست کے بچے ہیں اور حکومت سے نظام کا مطالبہ کرتے ہیں اور حکومت ہمیں نظام مہیا کرنے کے بجائے ٹال مٹول سے کام لے رہی ہے جس کی وجہ سے مجبوراً پرامن احتجاج کا راستہ اختیار کر چکے ہیں. پاکستان میں نرسز کی شدید کمی ہے جس کا برملا اظہار صدر پاکستان جناب ڈاکٹر عارف علوی صاحب بھی کرچکے ہیں اور حکومت آنکھیں بند کی ہوئی ہیں پبلک سروس کمیشن کے ذریعے نرسز بھرتی کرنے کے بجائے صرف کام چلایا جا رہا ہے ایم ٹی آئی میں نرسز کی کوئی مستقبل نہیں, ان کو ریگولر کرنا وقت کا تقاضا ہے صوبہ خیبر پختونخواہ میں صرف 6000 نرسز کام کر رہے ہیں اور آبادی کے تناسب سے کم سے کم ایک لاکھ نرسز درکار ہیں. ایک وینٹی لیٹر مریض پر ایک سٹاف جبکہ 8 مریضوں کے لئے ایک سٹاف نرس ہونا چاہئے مگر افسوس پورے حساس ایریا کو دو, تین نرسز چلاتے ہیں اور 40 مریضوں کی دیکھ بھال کی ذمہ داری ایک نرس پر عائد کی جاتی ہے جو مریضوں اور پروفیشنلز دونوں کے اوپر زیادتی ہے.

اب میں ان تمام نرسز سے مخاطب ہوں جو اپنے پیشے اور مریضوں کیساتھ مخلص ہیں پیشے کو اپنا عزت و وقار سمجھتے ہیں اور اسی عظیم پیشے کی بدولت شہرت پاچکے ہیں اور کئی پروفیشنلز ترقی کی راہوں میں ہیں. وہ تمام نرسنگ ڈائیریکٹرز/ منیجرز, لیکچراز, جو مخصوص وقت کیلئے محدود اختیارات کیساتھ کرسیوں پر براجمان ہیں وہ تمام نرسز جو 25,30 سالوں سے بیغیر پروموشن کے تکلیف و اذیت کیساتھ ڈیوٹیاں کر رہے ہیں تمام نرسنگ سٹاف جو نیت خدمت سے ابھی پیشے کیساتھ منسلک ہوچکے ہیں وہ تمام نرسنگ سٹوڈنٹس جو پروفیشن میں قدم رکھ چکے ہیں ان سب کے لئے یہی کہونگا کہ پیشے کی عزت و وقار, مضبوط پروفیشن کی تعمیر نو, پروفیشنلز کے لئے بہترین نظام کی خاطر غلامی کی زنجیروں کو توڑ کر, نیک نیتی و ایمانداری سے اپنے جائز مطالبات کو منوانے کے لئے قیادت کی آواز پر لبیک کہہ کر پرامن احتجاج میں حصہ ڈالنا ہوگا.
خیبر پختونخواہ نرسز الائینس جو احتجاج کی کال دے چکی ہے کے پی حکومت کے خلاف ہیں نہ ہی حکومت مخالف کوئی تحریک چلانا چاہتے ہیں بلکہ صرف آئین و قانوں کے مطابق نرسز کے جائیز مطالبات منوانے کے لئے تاگودو کر رہے ہیں جو سمجھتے ہیں پیشہ صرف پیسہ کمانا, اور کرسی پر بیٹھ کر حکم چلانا ہے تو غلط سوچ رہے ہیں جہان نظام نہ ہو, عزت و احترام نہ ہو, غلامی کی زنجیریں ہو, سر اٹھانے کو اختلاف سمجھے, وہاں آواز اٹھانا, أپنے پیشے کی مان رکھکر پروفیشنلز کی خاطر نکلنا ہی ایمان کی نشانی اور حق و باطل میں فرق کی علامت ہے اج بھی اگر دل کی آواز نہ سنی, ہمت کا مظاہرہ نہ کیا تو یاد رکھے اپ کی وجہ سے پیشے کی عزت داؤ پر لگنے کے ساتھ غلامی پروفیشنلز کا مقدر بنے گا اور زمہ دار وہ لوگ ہونگے جو خود کو ہوشیار سمجھ کر کمرے میں بند کرینگے یا نکلنے والوں کو ڈرا دھمکا کر قیدی کی شکل میں رکھینگے.
سب سے پہلے حکومت سے پرزور گزارش کرونگا کہ ہمارے جائز مطالبات تسلیم کرے تاکہ مریضوں کی علاج میں خلل نہ پڑے, نظام بننے سے مریض, پروفیشنلز سمیت حکومت کو فائدہ ہے اگر حکومت ہچکچاہٹ محسوس کرے تو پروفیشنلز اپنا احتجاج ریکارڈ کرانے کے لئے قیادت کی آواز پر لبیک کہے اور نظام قائم کروانے میں حصہ ڈال سکے

Advertisement

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button