خواتین کا صفحہصحت

خواتیں ڈے , نرسز کو سلام

ناصرعلی شاہ

خواتین ڈے منانے کا مقصد صنفی عدم مساوات پر روشنی ڈالنے کے ساتھ ساتھ جائز و برابری حقوق کا ازسرنو جائزہ ہے. یہ دن خواتیں کی لازوال قربانیوں کو سہراہنے اور خراج تحسین پیش کرنے کا بھی دن ہے جو انہون نے صحت عامہ, معاشی و معاشرتی, ثقافتی و سیاسی میدان میں حاصل کرکے دوسروں کے دست بازو بنتے ہیں خواتیں ڈے منانے کا مقصد خواتین کے معاشرے کی تعمیروترقی سے اگاہ کرنے اور تشدد کی روک تھام کا بھی دن ہے.

اللہ تبارک و تعالی نے عورت کو بے پناہ صلاحیتوں سے نوازہ ہے اور یہی خواتین ان صلاحیتوں کا درست استعمال کرکے بے مثال منازل طے کر چکے ہیں. عورت کے کئی روپ ہیں,
عورت اگر ماں ہے تو اپنے بچوں کے لئے جنت اور گھر کا ستون و رونق ہے.
عورت بیٹی کی صورت رحمت ہے جو بنا کسی شکواہ شکایت ماں باپ, بہن بھائیوں کی خدمت کرتی رہتی ہے اور گھر والوں کا سہارہ بھی بنتی ہے.
عورت اگر بہن ہے تو محبت کی بہترین مثال ہے اور ماں کا دوسرا نام ہے.
عورت اگر بیوی ہے تو ہر دکھ سکھ کا ساتھی ہے گھر میں اتفاق اور خوشحالی صرف اپ پر منحصر ہوتی ہے. عورت ہر روپ میں مثالی ہے.

خواتین مختلف شعبوں میں کارہائے نمایان کام سرانجام دے چکے ہیں ان شعبوں میں سے ایک عظیم شعبہ نرسنگ کا ہے جو ریڑھ کی ہڈی کی حیثیت رکھتی ہے. خواتیں نرسز ماں, بہن, بیٹی کا روپ دھار کر, جذبہ خدمت سے سرشار, عزت و احترام کیساتھ مردوں کے شانہ بشانہ کھڑے ہوکر آہتے کراہتے مریضوں کی ایمانداری کیساتھ خدمت کرتے ہیں. وہ تمام خواتیں جو نرسنگ پیشے سے منسلک ہیں داد کے قابل ہیں جو ہر خاتون کو اول پردہ مہیا کرتے ہیں پھر علاج کرتے ہیں انہی نرسز کی وجہ سے تمام عورتوں کی پرائیویسی ممکن ہوجاتی ہے اگر یہ نہ ہوتے, اگر نرسز نہ نکلتے پھر اس طرح کا علاج ممکن نہ تھا. نرسز کو سلام پیش کرتا ہوں.

اج کے دن کی مناسبت سے ان تین نرسز اور ان کے خاندانوں کو خراج تحسین پیش کرونگا جنہوں نے مشکل وقت میں اپنے بیٹیوں کو نرسنگ پیشے کے ساتھ وابسطہ کرکے عورتوں کی پردہ داری کو محفوظ بناتے ہوئے خدمت کرنے کا موقع مہیا کئے.


چترال سے تعلق رکھنے نرسز جو خدمت کی خاطر 1993 کو گھروں سے نکلے. یہ اسوقت کی بات ہے جب ربطے کے لئے موبائیل کی جگہ خطہ و کتابات تھی اپ لوگوں کا مقصد اپنے لوگوں کی خاص کر خواتین کی پرائیویسی کو برقرار رکھتے ہوئے پردہ داری کیساتھ علاج و معالج کو اگے بڑھانا تھی جسمیں اپ لوگ کامیاب ہوگئے. ان عظیم نرسز میں طاہرہ سید, گلشن اور ذولیخا جن کا تعلق اپر چترال سے ہے شامل ہیں.
طاہرہ سید ولد سید رحمت علی شاہ جن کا تعلق جنالکوچ کے داعی خاندان سے ہے ان کے ابا و اجداد عوام الناس کی دینی و دنیوی لحاظ سے خدمت کرتے ہوئے آرہے ہیں اپ عظیم اسکالر, بزرگ خلیفہ سیدالکریم اور استاد سیف الکریم کی چھوٹی بہن ہیں. اپ 1998 سے ڈسٹرکٹ ہیڈ کوارٹر ہسپتال میں بطور نرس خدمت پر معمور ہیں اپ نے اتے ہی ڈیپارٹمنٹ ذچہ و بچہ (گائینی) کی چارج سنبھال کر خدمت کا آغاز کیا اپ کے ہاتھوں میں چترال کے بے شمار بچے پیدا ہوئے جو ابھی انہیں نرسز کو گالیان دیکر نہیں تھکتے جنہوں نے خاص وقت میں پردہ داری کیساتھ خیال رکھ چکے ہیں. طاہرہ سید 23 سال کی سروس میں غیر حاضر نہیں ہوئی, اپ کی وجہ سے مریض نہ کسی سینئر کو کوئی تکلیف ہوئی ہے اپ ہر جان پہچان و انجان لوگ جو اس کے پاس جاتے ہیں مٹھی الفاظ کیساتھ ان کی بے لوث خدمت کرتے ہیں اپ چترال نرسز ایسوسیشن کے صدر رہ کر اپنے سٹافوں کی بھی خدمت کر چکے ہیں.

اپ ان 23 سالوں کے دوران اپنے سٹافوں سمیت ہسپتال عملہ سے چندہ جمع کرکے کئی غریب مریضوں کو ریفر کروا کر ان کی مدد کر چکے ہیں اج بھی اپر و لوئر چترال کے لوگوں کی ڈیوٹی کے علاوہ بھی بھرپور مدد کرتے رہتے ہیں ان مریضوں کو چیک اپ کروانے سے لیکر ڈسچارج تک تمام کام خود کرتے ہیں اپ تمام نرسز کے لئے رول ماڈل تصور کئے جاتے ہیں.
زلیخا کائے جو 1996 میں چترال ڈی ایچ کیو میں بطور نرسنگ افیسر تعینات ہوئے اپ کی خدمات بھی قابل فخر و قابل تحسین ہیں. اپ ڈیوٹی فل , مہذہب و شائستہ, مریضوں کے لئے درد رکھنے والے شخصیت ہیں. اپ اور طاہرہ کائے شانہ بشانہ خدمت کرتے ہوئے نظر اتے ہیں.
ان کیساتھ جنالی کوچ سے تعلق رکھنے والے گلشن بھی تھی جو قابل تھی وہ ابھی پشاور میں بطور نرسنگ لیکچرار کام کر رہے ہیں..

میرا مقصد کمیونٹی کے لئے ان کی خدمات کو عوام تک پہنچانا ہے بہترین انداز میں کمیونٹی کے لئے نرسز کے خدمات قابل تحسین ہیں جو دہائیوں سے درد میں کراہتے مریضوں کی ہمدرد بنتے ارہے ہیں ہم امید کرتے ہیں ہمارے تمام سٹاف ان کے نقش قدم پر چلتے ہوئے دل و جان سے مریضوں کی خدمت کرینگے اور اپس میں بھی ایک دوسرے کا سہارا بننگے.

Advertisement

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button