چترالیوں کی کامیابیکالم نگار

چترال کے دو ایدھی

 

شمس الحق قمر

میری ڈائری کے اوراق سے
دنیامیں ایسے لوگ خال خال پیدا ہوتے ہیں جو فطرتاً اپنے اردگرد بسنے والے انسانوں کی زندگی کو اپنی زندگی سمجھتے ہیں ۔اڑوس پڑوس میں کوئی کوئی دکھی ہو تو یہ بھی رنجیدہ ہوتے ہیں ۔ یہ اُس وقت تک سکھ کی سانس نہیں لیتے جب تک اردر گرد کا حلقہ آسودہ حال نہ ہو۔ آپ عبد الستار ایدھی کی مثال لےلیجئے مرتے دم تک سیاہ لباس میں رہے لیکن بے یارو مددگار بچوں اور بوڑھوں کو شا ہانہ لباس میں رکھا اور مرتے دم مریضوں کی مسیحائی کرتے رہے ۔ میں نے چونکہ چترال کے ایدھی کے موضوع پر کہانی چھیڑی ہے تو آحباب منتظر ہوں گے کے کہ چترال میں کون ایسی شخصیت یا شخصیات ہیں جنہیں چترا ل کے ایدھی کے لقب سے پکارا جا رہاہے۔
میں پیشکی معذرت کے ساتھ کہ میں ستائش کی تمنا اور صلے کی پروا سے بے نیازشخصیات کی شان میں مدح سرا ہوں ۔ میں یہاں پر اُن کی فقید المثال خدمات کا تذکرہ اس لئے نہیں کر رہا ہوں کہ اُنہیں مری تعریف کی ضرورت ہے بلکہ اس لئے کہ ہم سب اُن سے سیکھیں کہ سینے میں انسانیت کا درد کیسے سمایا جاتا ہے اور بے بس و بے کس انسانوں کی بے لوث خدمت کا جذبہ کتنا عظیم جذبہ ہوتا ہے ؟ دنیا میں آج بھی دو بڑی طاقتوں یعنی رحمان و شیطان کی جنگ جاری ہے ایک طرف وہ طاقت جو انسان کے روپ میں قرنوں سے اپنی لالچ اورحرص و ہوس کی آگ کو نہیں بجھا پایا اور دوسری طرف وہ بشر جوکھلتی کلی کی طرح ہردکھ ہنستے مسکراتے سہتا ہے لیکن دوسروں کےلئے ہمیشہ سے سامان راحت ہے ۔
میں اپنے مضمون میں آخر لذکر طاقت جو کہ رحمانی ہے، کوچترال لوٹ کوہ کے ہمارے دو کرم فرماؤں محترم روزیمن شاہ اور اُن کی اہلیہ محترمہ نگہت شاہ سے منسوب کرتے ہوئے چترال کے نادار مریضوں کے لئے اُن کی بے مثال خدمات پر خراج تحسین کے ایک دو ادھورے الفاظ اُن کی نذر کرنے جا رہا ہوں ۔ یہ وہی لوگ ہیں جنہوں نے اپنی زندگی پر دوسرے انسانوں کی زندگی کو ہمیشہ سے مقدم جانا ہے ۔ ارشاد باری تعالیٰ ہے ( مفہوم) جس نے ایک انسان کی جان بچائی گویا اُس نے تمام انسانیت کی جان بچائی۔ چترال جیسے دور افتادہ علاقے میں ہر سال بے شمار افراد گردوں کے امراض میں مبتلا ہوتے ہیں اور بروقت تشخیص یاوقتی طور پرعلاج نہ ہونے کی وجہ سے نادار مریض اپنے خاندانوں کو ہمیشہ کےلیے داغ مفارقت دے کردار فانی سے کوچ کر جاتے ہیں ایسے تمام مریضوں کی جان بچانے کےلئے چترال میں ڈائلیسیز مشین کی تنصیب چترال کے طول و عرض میں خوشی کی لہر دوڑ چکی ہے ۔
میری ان دو اہم شخصیات سے یاد تو نہیں لیکن یہ ضروری بھی نہیں کہ ہم لوگوں سے دو بدو ملاقات کریں اور پھر اُن کے بارے میں قلم اُٹھائیں اور رطب اللسان ہوں تاہم کچھ لوگ اپنے کام اور کردار سےسماج کے دلوں پر راج کرنے لگتے ہیں ۔ روزیمن شاہ اور نگہت شاہ وہی افراد ہیں جو سماج کے دلوں میں راج کرنے لگے ہیں ۔ چترال جیسے دور افتادہ علاوقے کےلیے ڈائلیسز مشین خریدنے اور لانے سے بڑھ کر اس عمل کے پیچھے جو سوچ کارفرما ہے وہ قابل صد تعریف و تحسین ہے ۔ جب ہم نے ڈائلیسز مشین کی تنصیب پر خبر پڑھی تو معلوم ہوا کہ یہ مشین حکومت کی طرف سے نہیں بلکہ دو افراد کی جانب سے عطیہ کے طور پر چترال پہنچی تھی یہی نہیں بلکہ ایک اور نایاب مشین جو کہ پانی کو اتنا پتلا کرتی ہے کہ صاف پانی انسانی پوست کے انتہائی باریک رعشوں تک پہنچ کردوا کا کام کرتا یہ سب کچھ سننے اور چمر کھن میں پڑھنے کے بعد اُن دو شخصیات سے شرف ملاقات کی آرزو بھی پیدا ہوئی ۔ ہماری یہ آرزو چترال کے مؤقر برقیاتی روزنامہ ” چمر کھن گروپ” نے ان مسیحاؤں کے رضا کارانہ خدمات کے قصے تفصیل سے سنا کے پوری کی۔ کہانی یہاں ختم نہیں ہوتی بلکہ سنا یہ گیا ہے کہ چترال کے مختلف علاقوں میں مفت میڈیکل کمپ کا اہتمام کرتے ہوئے چالیس سال سے زیادہ عمر کی اُن تمام خواتین کو کہ جن پر سرطان خصوصاً چھاتی کے سرطان کا شک ہونے پر اُن کے مفت علاج کا بیڑا بھی انہی شخصیات نے اپنے شانوں پر اُٹھا رکھا ہے۔ اس پروگرام کی سب سے بڑی خوبی یہ ہے کہ ان تمام معائنہ گاہوں کو افواج پاکستان اور سول کے شہدا کے چترال کے محسنوں کے ناموں سے منسوب کیا گیا ہے سرطان کے مفت معائنے اور میمو گرافی کا سلسلہ چترال کے درج ذیل 5 مقامات پر ہوگا :
چترال: اسامہ وڑائچ ( شہید) کیمپ، 19 تا 22 مئی، 2021 ۔ صبح 9 بجے سے شام 4 بجے تک
گرم چشمہ : لانس نائک حضرت الدین ( شہید) کیمپ، 23 تا 25 مئی 2021 ۔ صبح 9 بجے سے شام 4 بجے تک
بونی: صوبیدار ظفر مراد ( شہید) کیمپ، 26 تا 28 مئی 2021 ۔ صبح 9 بجے سے شام 4 بجے تک
مستوج : نائک محمد کریم ( شہید) کیمپ، 29 تا 31 مئی 2021 صبح 9 بجے سے شام 4 بجے تک
دروش: کرنل مراد ( مرحوم ) کیمپ، 1 تا 4 جون 2021 ۔ صبح 9 بجے سے شام 4 بجے تک
چترال میں ڈائلیسزمشین شاید حکومت کی طر ف سے چترال کے کسی بھی ہسپتال میں نصب ہوتی جیسے پاکستان کے دوسرے ہسپتالوں میں ہوئی ہے لیکن روزیمن بھائی اور نگہت شاہ بہن کی اس کاوش نے پاکستان اور خصوصاً چترال کے لوگوں کو اسلامی تعلیمات کا جو درس دیا ہے وہ آنے والی نسلوں کی تاریخ میں سنہرے حروف سے لکھا جائے گا اور مریضوں کو ملنے والے علاج کا ثواب رہتی دنیا تک قائم رہے گا ۔ ہم سب ان دو شخصیات کی دارزیٔ عمر، صحت اور سلامتی کےلیئے ہمیشہ بدست دعا ہیں ۔
اس کے علاوہ محترمہ نگہت کائے ایک مختصر فلم ” دریا کے اِس پار” پر کام کر رہی ہیں جس کے ذریعے گلگت بلتستان اور چترال میں نوجواں نسل میں خود کشی کے بڑھتے ہوئے رجحان پر قابو پایا جا سکے گا ۔ یہ وہ واحد فلم ہے جس کا ناظرین شدت سے انتظار کر رہے ہیں ۔ ہم چترال کے مشہور برقیاتی روزنامہ ” چمرکھن گروپ” کے تہہ دل سے مشکور ہیں کہ جن کی وساطت سے مذکورہ مسیحاؤں سے پاکستان اور خصوصاً چترال کے طول و عرض تک سب متعارف ہوئے ۔ چمرکھن گروپ سے ہماری یہ بھی توقع ہے کہ وہ مذکورہ مسیحاؤں کی کسی بھی وقت ملک آمد پر اپنے ممبروں کو آگاہ کریگا تاکہ ہم سب مل کر تقریبِ اظہار تشکر کا اہتمام کر سکیں ۔
؎ درد دل کے واسطے پیدا کیا انسان کو ورنہ طاعت کےلئے کچھ کم نہ تھے کرو بیاں

Advertisement

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button