خواتین کا صفحہفٹ بال

بچیوں کے فٹ بال میں مسئلہ یہ ہے۔

گزشتہ تین چار دنوں سے چترال کی رہائشی بچیوں کے اسلام آباد جا کر فٹ بال پریکٹس کو لے کر چترالی فیس بُک صارفین نے فیس بُک کو میدان ِ جنگ بنایا ہوا ہے۔

نثار احمد

ترش و شیریں

 

گزشتہ تین چار دنوں سے چترال کی رہائشی بچیوں کے اسلام آباد جا کر فٹ بال پریکٹس کو لے کر چترالی فیس بُک صارفین نے فیس بُک کو میدان ِ جنگ بنایا ہوا ہے۔ محاذ گرم رکھنے کے لئے فریقین کی طرف سے ایک دوسرے پر لفظی گولہ باری کا سلسلہ وقفے وقفے سے اب بھی جاری ہے۔ اس مقابلے میں بعض دوست ایسے بھی نظر آئے جن کے انداز ِ گفتگو، انتخاب ِ الفاظ اور اسلوب ِ تنقید سے ایسا مترشح ہوا گویا کہ اُنہیں چترالی بچیوں کے فٹ بال کھیلنے اور نہ کھیلنے کے مسئلے کو ضرور بالضرور کسی کروٹ بیٹھا کر ہی چھوڑنا ہے بصورتِ دیگر ان کی دنیا میں تشریف آوری کا مقصد ہی ادھورا رہ جائے گا۔ خبر کے فیس بُک کی زینت بننے سے لے کر آج تک کچھ بندگان ِ خدا بچیوں کے اس اقدام کی سخت مخالفت کر ریے ہیں اور بعض شدید حمایت۔ مسئلہ حمایت اور مخالفت میں نہیں بلکہ اس "شدید” اور "سخت” کے چکر میں دلی بھڑاس نکالنے میں ہے۔ ہمارے زیادہ تر جھگڑوں کے پیچھے یہی مذموم جذبہ کارفرما ہوتا ہے کہ ہم کسی بھی واقعے کو من پسند تناظر میں رکھ کر دلی بھڑاس نکال کر ہلکا ہونے کو ضروری سمجھتے ہیں۔ اگر قابلِ مذمت واقعہ "اپنوں” کا نہیں "دوسروں” کا ہے تو پھر ہمیں خوشی ہوتی ہے کہ چلو اس بہانے "دوسروں” کو فیس بُک میں دھلائی کرنے اور گھسیٹنے کا زریں موقع میسر آ گیا۔ اس منافقت کی مثالیں فیس بُک میں ہی نہیں، ہمارے اردگرد بھی پڑی ہوئی ہیں۔ عرصہ پہلے اپنے شاگرد کے اوپر تشدد کرتے ہوئے مدرسے کے ایک قاری صاحب کی ویڈیو وائرل ہوئی تھی۔اس ویڈیو کو بنیاد بنا کر جن لوگوں نے دل کھول کر مدرسے میں پڑھانے والے قاری صاحبان کی دُرگت بنائی تھی بعد میں ایک سکول ٹیچر کی ایسی ویڈیو سامنے آنے پر سکول ٹیچر کو لعنت ملامت کو غیر ضروری سمجھا یہاں گویا کہ انہیں سانپ سونگھ گیا۔ لیکن یہاں ان دوستوں نے ماسٹر صاحب کی ویڈیو اچھال کر سکول سسٹم کو سخت ہدفِ تنقید بنایا جنہیں قاری صاحب والی ویڈیو چھپانے میں دلچسپی تھی۔ ظاہر ہے کہ اس کے پیچھے ایک تاریخی کشمکش ہے۔
ان دونوں کے بیچ میں وہ لوگ پِس جاتے ہیں جو معروضیت کی بات کرتے ہیں۔ معروضیت اور معقولیت کی بات کرنے والے ان کاٹ کھانے والوں سے ڈر کر کبھی کبھار اپنی بات سامنے بھی نہیں لا پاتے۔ فکری طور پر ان متحارب گروہوں میں سے جس گروہ کو مخالف گروہ کی کوئی قابلِ مذمت چیز ہاتھ آتی ہے تو اسے بنیاد پر وہ دوسرے گروہ کے خلاف اپنا دلی بھڑاس حکم ِ خدا وندی سمجھ کر نکالتا ہے۔ حالیہ دنوں میں میڈیکل کالج کی ایک طالبہ کی پراسرار موت سامنے آئی۔ یہاں چونکہ بات "کو ایجوکیشن” والوں کے خلاف اور مذہب پسندوں کے موقف کے حق میں جا رہی تھی اس لئے اس واقعے پر خود کو لبرل یا روشن خیال سمجھنے والے ہمارے دوست لب کشائی کرنے سے گریزاں رہے۔
انسانوں کے بیچ کسی مسئلے کے بارے میں آراء کا مختلف ہونا مسئلہ نہیں ہوتا بلکہ مسئلہ ایک دوسرے کے نقطہء نظر کو سمجھنے کی نیت کیے بغیر صرف اپنی قوالی کی گردان مخالف کے کانوں میں ٹھونسنے پر کاربند رہنا ہوتا ہے۔
اب حالیہ صورت حال ہی دیکھ لیجئے جن دوستوں نے بچیوں کے فٹ بال کھیلنے کی شدید مخالفت کی۔ اُن کے پاس اس کی ایک ٹھوس شرعی اور واضح قرآنی بنیاد موجود ہے لیکن شروع شروع میں ان میں سے زیادہ تر نے اس ٹھوس بنیاد پر شائستگی و متانت کے ساتھ اپنا مقدمہ اٹھانے کی بجائے مخالفین پر جذباتی وار کرنے، بچیوں کی بابت نازیبا الفاظ چبانے اور انہیں مشتعل کرنے پر اکتفاء کیا۔ بعض دوستوں نے دبے الفاظ میں انہیں ایک کمیونٹی کے ساتھ جوڑ کر دیکھنے کی کوشش بھی فرمائی۔ جواب میں خود کو جدّت پسند سمجھنے والے ہمارے دوست بھی پیچھے نہیں رہے۔ انہیں اس آڑ میں اپنا پرانا حساب کتاب بے باق کرنا یاد آیا۔ مذہب پسندوں کی ضد میں اپنے نظریئے کو پروموٹ کرنے کے لئے انہوں نے بچیوں کے فٹ بال کھیلنے کی نہ صرف حمایت کی بلکہ یہ غلط تاثر بھی پھیلایا کہ "مولوی ٹائپ یہ مذہبی مخلوق ہر جدید چیز کی مخالفت کرتی ہے۔ بچیوں کے فٹبال کھیلنے کی مخالفت بھی اس سلسلے کی کڑی ہے”۔
حالانکہ دونوں باتیں غلط ہیں۔ نہ یہ بات ٹھیک ہے کہ مولوی ہر جدید چیز کی مخالفت کرتے ہیں اور نہ یہ کہ فٹ بال کھیلنے کی مخالفت اس سلسلے کی کڑی ہے۔ بچیوں کے فٹ بال کے معاملے ننانوے فی صد چترالی عملاً اور اسّی فیصد سے زیادہ زہناً و فکراً اس بات پر متفق ہیں کہ اس کی چنداں ضرورت ہے اور نہ ہی ہمارا کلچرومذہب اس کی اجازت دیتا ہے۔ ابھی چترال کیا، مملکت ِ پاکستان کا کوئی کوئی ایک چپہ بھی مذہب اور اسلامی کلچر سے اتنا بیگانہ نہیں ہوا کہ وہاں کے گلی کوچوں اور صحرا و میدانوں میں بچیوں کے فٹبال میچ کے مظاہر دکھائے جائیں۔

بچیوں کے فٹ بال کھیلنے کا تعلق براہِ راست پردے کے ساتھ ہے۔ سامنے کی حقیقت یہ ہے کہ پردہ بھی ان مسائل میں سے ایک ہے جن کے بارے میں قرآن میں انتہائی مفصّل اور صریح المعنی احکام آئے ہیں۔ پردے کا حکم آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی قولی تعلیمات ہی میں نہیں، عملی سنت میں بھی موجود ہے۔ قرآن مجید میں متعدد مقامات پر صاف صاف، واضح ، غیر مبہم اور دو ٹوک انداز پردے کا حکم آنا اس بات کی علامت ہے کہ بے پردگی اسلامی معاشرے کے لئے اُم المسائل کا درجہ رکھتی ہے۔ ہاتھ اور چہرہ پردے کے حکم میں داخل ہیں یا نہیں اِس میں علماء کی رائے مختلف ضرور ہے تاہم مسلمانوں کے کسی بھی مکتبہ ء فکر نے پردے کی مخالفت پہلے کی ہے نہ اب کر رہا ہے۔ "دل صاف ہو تو پردے کی ضرورت نہیں رہتی” جیسے زبان زد جملے محض ڈھکوسلے ہیں۔
ظاہر ہے کہ صحابہ رضی اللہ عنہم اجمعین اور ازواج مطہرات کے دل سے زیادہ پاکیزہ دو ہزار اکیس میں کسی دل جلے نوجوان کا دل ہو بھی نہیں سکتا۔ جب قرآن کریم میں اُنہیں پردے کی تاکید کی گئی تو آج ہم کیا بیچتے ہیں۔

ہمارے جدت پسند دوست ایک دوسرے کو یہ گمراہ کن مغالطہ بھی دیتے ہیں کہ بہت سارے ایجادات اور نئی چیزوں کو ابتداً سخت مخالفت کا سامنا کرنا پڑا بعد ازاں دھیرے دھیرے وہ تمام چیزیں مسلمانوں کے معمول میں آ گئیں۔ یہاں بھی یہ دوست زیب ِ داستان بڑھانے کے لئے شدید مبالغہ آرائی سے کام لیتے ہیں۔ مشتے از خروارے کے طور پر ایک لاؤڈ اسپیکر کا ذکر کرتے ہیں۔ فرمایا جاتا ہے کہ لاؤڈ اسپیکر کی مخالفت کرنے والےاب اس کی جان چھوڑنے پر آمادہ نہیں ہوتے۔ کہتے ہیں کہ شروع شروع میں لاؤڈ اسپیکر کی بھی سخت مخالفت کی گئی تھی۔
ہمارے ان طعنہ باز دوستوں کو کون بتائے کہ مخالفت لاؤڈ اسپیکر کی تھی ہی نہیں۔بلکہ علماء کے مابین زیر ِبحث مسئلہ لاؤڈ اسپیکر میں نماز پڑھنا تھا۔ علماء کی ایک بڑی تعداد کے نزدیک بوجوہ لاؤڈ اسپیکر کے بغیر نماز "لاؤڈ اسپیکر والی نماز” سے زیادہ بہتر تھی۔ لاؤڈ اسپیکر میں نماز کے عدم جواز کے قائل مولانا حسین احمد مدنی کا خیال یہ تھا کہ لاؤڈ اسپیکر کے لہروں پر سوار ہو کر جو آواز مقتدیوں تک پہنچتی ہے وہ امام کی اصل آواز میں "بلندی” نہیں ہوتی بلکہ بازگشت جیسی ایک الگ آواز ہوتی ہے۔ اور اُن کی یہ رائے بھی اس زمانے کے سائنسی ماہرین کی رائے سے مستفاد تھی۔
بہرحال اس طولانی بحث میں یہاں پڑنا نہیں چاہتا اتنا بتانا مقصود ہے کہ ہمارے جدت پسند دوست بہت ساری چیزوں میں سنی سنائی مبالغہ آرائی سے کام لیتے ہیں۔ اتنا ضرور ہوا ہے کہ جو بھی نئی چیز آئی ہے شریعت کی روشنی میں اس کا جائزہ لیا گیا ہے۔ اس جائزہ پراسس میں وقت بھی لگا ہے اور آراء بھی مختلف ہوئے ہیں۔ بعض کی رائے جواز کی جانب تو بعض کی عدم جواز کی طرف بھی رہی ہے۔ لیکن ایسا نہیں ہوا کہ سب نے متفقہ طور پر ایک چیز کو حرام قرار دے کر پھر آہستہ آہستہ اسے حلال کے طور پر برتا ہو۔ (جاری ہے)

Advertisement

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button