کالم نگار

تم اپنے دل کو سنبھالو کہ جس میں ہزار طرح کے نشتر چبھیں گے

ہم عصرِ حاضر میں علمی، سائنسی، سماجی و معاشرتی اور شعوری طور پر ارتقاء کے تیزترین مراحل سے گزر رہے ہیں۔ بہت ساری چیزیں جن کو ہم نے صدیوں فطری کنسٹرکٹ سمجھا ہوا تھا

ظہور الحق دانش

 

 

غالباً فیض نے کہا تھا

تم اپنے دل کو سنبھالو کہ جس میں
ہزار طرح کے نشتر چبھیں گے

ہم عصرِ حاضر میں علمی، سائنسی، سماجی و معاشرتی اور شعوری طور پر ارتقاء کے تیزترین مراحل سے گزر رہے ہیں۔ بہت ساری چیزیں جن کو ہم نے صدیوں فطری کنسٹرکٹ سمجھا ہوا تھا اب فکر، مطالعہ، مشاہدہ اور تجربے کی بدولت آہستہ آہستہ وہ چیزیں ڈی کنسٹرکٹ ہو رہی ہیں اور پتہ چل جاتا ہے کہ وہ فطری کنسٹرکٹس نہیں تھے بلکہ سماجی کنسٹرکٹس تھے۔ مثال کے طور پر شناخت، قومیت، صنف اور صنف سے منسوب الگ الگ استعداد، مشاعل اور کردار یعنی roles وغیرہ۔
اب اس تناظر میں ایک باشعور معاشرے کو کیا کرنا ہوگا؟
مذکورہ بالا مختلف شعبوں میں پیش آنے ارتقاء اور ترقی اور ان پر اثرانداز ہونے والے مختلف عوامل کا مشاہدہ اور تجزیہ کرکے انسان اور معاشرے کو اللہ کے دیے ہوئے شعور کی طاقت سے سمجھنے کی کوشش کرے گا۔ شعور کا راستہ بند کرکے تنقید برائے تنقید یا تنقید برائے تضحیک نہیں کرے گا۔ ایسے معاشرے کا ایک باشعور فرد معاشرہ اور معاشرہ کی اکائیوں اور شعبہ ہائے زندگی پر غیر متعصبانہ اور غیر جانبدارانہ نظر رکھے گا، مختلف عوامل اور پہلوؤں کا غیر جانبدارانہ مطالعہ اور تجزیہ کرے گا اور بعد از تجزیہ لوگوں تک اپنی استعداد اور استطاعت کے مطابق درست آگہی پہنچائے گا۔
ستم ظریفی ہے کہ ہم ارتقاء اور ترقی کو سمجھنے کے بجائے روکنے کی سعیِ لاحاصل میں لگے ہوئے ہیں۔ ایسا کرتے ہوئے ہم وقت کی دھار کو پلٹانے میں لگے ہوئے ہیں، حالانکہ ہم خود بھی وقت کی دھار کے پیداوار ہیں

Advertisement

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button