گلگت بلتستان

ووٹ ،روڈ اور بجلی

اولذکر لفظ ووٹ جمہوری عمل میں عوام کا اپنے کلی اختیار کیساتھ اپنی مرضی سے یا کسی معاہدے ، واسطے، رشتے ناطے یا نظریئے کی بنیاد پر کسی ایک اُمیدوار کے انتخابی نشان پر مہر لگا کر چناو کا حق ہے

فدا علی شاہ غذری

برملااظہار
اولذکر لفظ ووٹ جمہوری عمل میں عوام کا اپنے کلی اختیار کیساتھ اپنی مرضی سے یا کسی معاہدے ، واسطے، رشتے ناطے یا نظریئے کی بنیاد پر کسی ایک اُمیدوار کے انتخابی نشان پر مہر لگا کر چناو کا حق ہے۔ اس بات کے اعتراف میں کیا جُرم ہے کہ ہمارے معاشرے میں عوام کو کلی اختیار حاصل ہے اور نہ ہی کبھی حاصل ہوگا۔ اس امر میں کئی وجوہات ہے اختصاراّ عرض ہے کہ یہ عمل کسی نہ طرح مذہبی، مسلکی ، لسانی ، علاقائی ، ذاتی اور دیگر عوامل کا شکار رہتا ہے۔ سیاسی لوگ ان کو سیاسی کارڈز کہتے ہیں۔۔ جیسا کہ ۱۶ نومبر کی اعلیٰ الصبح ہمارے ڈپٹی سپیکر نذیر احمد آراو کے آفس میں میرے سوال پر مجھے یہ جواب دیا۔۔سوال یہ تھاکہ میں آپ کے مخالف ایک امیدوار جوکہ میرے قریبی ہیں، بہت عرصے سے جانتے ہیں، سب سے بڑی بات حلقے کے آخری کونے سے ہیں اور اکثریتی رائے دہی کے حامل تھے تو میں نے اُن کو ووٹ دیا جبکہ بالائی حصے سے اچھے خاصے ووٹس آپ کو بھی اور دیگر پونیال کے اُمیدواروں کو بھی ملے جبکہ ہمیں یعنی بالائی غذر کے امیدواروں کو پونیال سے ووٹ بہت کم پڑے پھر بھی ہم علاقہ پرست کہلاتے ہیں اور پو نیال والے نہیں۔۔۔۔تو فرمایا فدا بھائی یہ سیاسی کارڈز ہیں چلتے ہیں۔۔دل پہ مت لو۔۔۔میرے پاس کہنے کو کچھ نہیں بچا۔
اب آتے ہیں ثانی الذکر کی طرف ، اس وقت پورے غذر میں غالباً پندرہ میگاوٹ کے بجلی گھر ہیں یاسین میں چار گوپس میں دو پونیال اشکومن میں غالباً 4 سے پانچ بجلی گھر موجود ہیں۔ سردیوں میں نالوں میں پانی کی کمی کے سبب پیدوار نصف جبکہ ضرورت زیاد ہے۔ یاسین کے تین بجلی گھروں سے گوپس کے صرف ایک دیہات کو بجلی ملتی ہے باقی کی بجلی ادھر ہی نا کافی ہوتی ہے۔ تحصیل پھنڈر کا اکلوتا ایک میگاواٹ بجلی گھر صرف چھ سو سے ساڑھے چھ بجلی پیدا کرتی ہے جوکہ ہردوسرےدن چوبیس گھنٹے کی لوڈشیڈنگ کے ساتھ بمشکل بلب روشن کر تا ہے۔ گوپس تحصیل کے دورافتادہ گاوں بتھریت میں پیدا ہونے والی سات سے آٹھ سوکلو واٹ بجلی میں سے پانچ سو گوپس کو جبکہ تین سو کلوواٹ داماس کو مل جاتی ہے اور اسی تحصیل میں موجود درمندر پاور ہاوس کی ایک مشین سے نو سوکلو واٹ بجلی پونیال کودی جاتی ہے۔ اب اس موضوع کے آخری سرے تک چلتے ہیں جوکہ اگلے موضوع کا بنیاد بن چکا ہے۔ گوپس کے عوام ایک دن کے بعد اٹھارہ گھنٹوں پر مشتمل لوڈشیڈنگ سے عاجز آنے کے بعد احتجاجی بن گئے تو انتظامیہ متحرک ہوئی اور مذاکرات کے میز پر بیٹھی جس کا میں خود عینی شاہد ہوں۔۔دونوں طرف خوشگوار ماحول میں بات چیت ہوئی اور یہ فیصلہ ہوا کہ بتھریت سے ملنے والی ۳۰۰کلوواٹ بھی گوپس اور پھنڈر کے صارفین کو دیتے ہیں اور درمندر کے نو سو میں سے داماس کی ضرورت پوری کریں گے اور فیوز سسٹم سے بچنے والی بجلی سے سردیوں کے کچھ دن نکل جائیں گے۔ پھر کیا تھا کہ ہنگامہ برپا ہوا۔۔
آخری موضوع پہ کچھ لکھنے سے قبل اتنا عرض ہے کہ
ہم آہ بھی کرتے ہیں تو ہوجاتے ہیں بد نام
تم قتل کرتے ہو کہ کرامات کرتے ہو
ارے داماس کے باسیوں ہم۔بھی آپ کے بھائی ہیں، یخ بستہ سردیوں کے ذد میں ہیں ۔۔۔ہماری بگڑی شکل اُڑے رنگ سے تم۔خود پریشان ہوتے ہو کبھی کبھی پیار سے "پربو پوریو” کہتے ہو۔۔۔۔آخر تمہارے دل میں اپنے بھائیوں کے لئے رحم نہیں؟ کیا ہواہم۔اگر تین سو بجلی آپ سے لے کر اپنے بچوں کے علمی سفر میں پیش آنے والے اندھیرے مٹاکر ان کا سفر جاری رکھ سکے تو؟ کیا ہونو سو کی بجلی آپ کو دے کر برسیت میں موجود ایک دادی کے لرزتے کانپتے بدن پر گرم۔پانی کے چھنٹے پڑے تو۔۔۔کیا قیامت آئیگی کہ ٹھٹھرتی سردی میں ہیٹر کے سرد مہر انگارے کسی کی پلکوں میں پڑی برف پگلا سکے تو۔۔۔
آرے بھائیوں نہ روڈ نہ بجلی اور نہ ہی کوئی دوسری ریاستی سہولت کسی کے باپ کی جاگیر ہیں بس ہماری سہولت کے لئے دی گئی ہیں ۔۔۔روڈ پر پڑے سرد مہر رویوں کے جنازے ہٹادو۔۔۔ایمبولینس کو راستہ دوتا کہ کسی کے جسم۔میں زندگی کی رمق بحال ہوسکے۔۔۔ورنہ انسان نامی درندوں کے بدن پر انسانیت کی رمق بحال رہ نہ سکے گی۔
یار زندہ صحبت باقی
Advertisement

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button