خواتین کا صفحہکالم نگار

نوجوان اخلاقی تباہی کے دہانے پر۔ آخر کیوں؟

آج کل کی نوجوان نسل میں جہاں سائنس اور ٹیکنالوجی کی وجہ سے گزشتہ نسلوں سے زیادہ باخبر اور سہولیات کا حامل ہے وہی اسکا سے بڑا مسئلہ ان میں اخلاقی اور سماجی اقدار کا انہدام ہے

عریشہ صفدر

عریشہ صفدر نمل اسلام آباد میں شعبہِ صحافت کی طالبِ علم ہیں۔ مختلف سیاسی اور سماجی موضوعات پر کالم اور مضامین بھی لکھتی ہیں۔ پاکستان میں خواتین کے مسائل پر گہری نظر رکھتی ہیں

 

آج کل کی نوجوان نسل میں جہاں سائنس اور ٹیکنالوجی کی وجہ سے گزشتہ نسلوں سے زیادہ باخبر اور سہولیات کا حامل ہے وہی اسکا سب سے بڑا مسئلہ ان میں اخلاقی اور سماجی اقدار کا انہدام ہے۔ ان کی زندگی میں دوراندیشی اور بڑے مقاصد اور عزائم کی کمی ہے۔ وہ چاہتے ہیں کہ ہر چیز مشینی انداز میں کام کرے کیوں کہ والدین اپنے فرائض کی ادائیگی اور ان کی زندگی بنانے میں اس حد تک مصروف ہیں کہ وہ جس کی زندگی بنا رہے ہیں ان کے پاس اس کی اخلاقی تربیت کے لیے بسا اوقات چند لمحے بھی نہیں ہیں۔

انسان کو اکثر زندگی کے کسی موڑ پر دوسروں کی رہنمائی کی ضرورت پڑتی ہے جو انہیں صحیح اور غلط  میں فرق سمجھا سکے۔ اکثر ایسی رانمائی کے لیے ہمیں والدین، دوستوں اور عزیز و اقارب کی ضرورت پڑتی ہے۔ چونکہ ماں باپ کے پاس دینے کے لیے وقت نہیں ہے اسی لئے اکثر نوجوان دوستوں کی طرف رجوع کرتے ہیں۔ اب یہاں اہم بات دوستی کی ہے۔  دوست ایک دوسرے کو بگاڑنے اور سوارنے میں اہم کردار ادا کرتے ہیں۔ لہذا دوستوں کا انتخاب سوچ سمجھ کر کرنا چاہیے۔ مثبت دوست آپ کی زندگی سنوار سکتے ہیں اور منفی دوست اپ کو تباہی کے دہانے پر لے جاسکتے ہیں۔ یہی دوستی اور رفاقت بیشتر اوقات آج کل کے نوجوان کو تباہ کرتی ہیں۔

نو عمری میں انسان کے پاس عقل کا فقدان اور تجسس کی بھر مار ہوتی ہے۔ تو وہ مختلف چیزوں کی کھوج لگانے میں لگ جاتے اور طویل المعیاد مقاصد کا تعین کرنا بھول جاتے ہیں۔ کبھی کبھار یہی بے مقصد زندگی انھیں غلط چیزوں کی طرف راغب کرتی ہے۔

آج کے نوجوان اخلاقی طور پر کمزور بنیادوں پر کھڑے ہیں۔ لڑکے اکثر سگریٹ نوشی، منشیات اور جوا کھیلنے میں مشغول رہتے ہیں۔ بعض اوقات وہ اکثر خود کو اس مقام پر لے جاتے ہیں جہاں موت جینے سے کہیں زیادہ آسان دکھائی دیتی ہے۔ جائزہ لیا جائے تو بچے بالکل پانی کی طرح ہوتے ہیں۔ وہ کسی بھی کنٹینر کی شکل کو اپناتے ہیں جس میں انہیں ڈالا جاتا ہے۔ بُری صحبت میں وہ جرائم میں بھی ملوث ہو جاتے ہیں۔ ہماری آنے والی نسل ہمارے اپنے ہاتھ میں ہے لہذا ہمیں  ان کو زیادہ سے زیادہ وقت دینا ہوگا اور والدین کو اپنی ذمہ داریوں کو بہت سنجیدگی سے لینا چاہئے تاکہ ان کے بچے ایسا انسان بنے جو اپنے سماج کے لئے فائدہ مند ثابت ہو۔

کچھ دوسری چیزیں جو نوعمروں کے ذہنوں پر اثرانداز ہوتی ہیں ان میں ایک اہم چیز سوشل میڈیا اور اس کا منفی استعمال ہے جو ان کی اخلاقیات میں خلل ڈالتا ہے۔ اگر وہ بہت زیادہ تشدد دیکھتے ہیں تو ان کی پوری ذہنیت بدل جاتی ہے جو کہ ان کی شخصیت کو متاثر کرتی ہے۔ اسکے بےجا استعمال نہ صرف وقت اور صلاحیتوں کی تباہی کا باعث بنتا ہے بلکہ اپنے اردگرد اور رشتہ داروں سے کٹنے کا اور الگ تھلک اور اپنی "آن لائن” دنیا بسانے کا سبب بھی بنتا ہے۔ گو کہ سوشل میڈیا کے نہایت مثبت اور مفید پہلوں بھی ہیں مگر انکے حصول کا انحصار اسکے مناسب استعمال پر ہے۔

لہذا والدین بننے کا فیصلہ کرنے سے پہلے یہ جاننا ضروری ہے کہ آیا آپ کے پاس اپنے بچوں کو دینے کا وقت ہے یا آپ صرف ان کو سماجی اور اخلاقی تربیت دیے بغیر محض نصابی تعلیم فراہم کرنے کے خواہاں ہیں۔

Advertisement

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button