طرز زندگیکالم نگار

صحابیات ؓ کی معاشی اورسماجی کردار کی چند مثالیں(قسط اول )

اسلام ایک فطری دین ہے اور معاشرے میں اس کی فطری تنظیم کے دو شعبے ہیں ایک خانگی شعبہ اور دوسرا تمدنی شعبہ۔ بیرون خانہ کے تمام امور اور حصول معاش کی ذمہ داری مرد کے سپرد ہے

 

ریاض الدین

فاضل علوم اسلامیہ ومتخصص فی الفقہ اسلام آباد

 

اسلام ایک فطری دین ہے اور معاشرے میں اس کی فطری تنظیم کے دو شعبے ہیں ایک خانگی شعبہ اور دوسرا تمدنی شعبہ۔ بیرون خانہ کے تمام امور اور حصول معاش کی ذمہ داری مرد کے سپرد ہے اور جہاں تک اندرون خانہ کا تعلق ہے تو عورت کو گھر کی مالکہ قرار دیا گیا ہے۔ جس کے ذمہ مرد کے کمائے ہوئے مال سے اس کے گھر کا انتظام کرنا، اس کے لئے سکون مہیاکرنا، اس کی خدمت کرنا، اس کے بچوں کی صحیح پرورش کرنا اور امور خانہ داری سرانجام دینا ہے۔ عورت پر ان تمام امور کی ذمہ داری کے بارے میں واضح ہدایت ہمیں اس حدیث مبارکہ سے بھی ملتی ہے جس میں حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے ارشاد فرمایا :المراة راعية علی بيت زوج ها وولده و هی مسؤلة عن هم۔(صحيح بخاری:5200)
’’عورت اپنے شوہر کے گھر اس کے بچوں کی نگران ہے اور اس دائرۂ عمل میں جواب دہ ہے‘‘
عورت کی یہ ذمہ داریاں بڑی اہم ہیں اس محاذ پر ڈٹے رہنا اس کے لئے بڑا ضروری ہے بلکہ اس سے تھوڑی دیر کے لئے بھی ہٹنا اس کے لئے بڑا مضر ہے یہی وجہ ہے عورت کو اجتماعی عبادات مثلاً نماز پڑھنے کے لئے مسجد میں جانے، نماز جمعہ یا نماز جنازہ پڑھنے سے مستثنیٰ قرار دیا گیا ہے۔
اسلام میں بنیادی طور پر کسب معاش کی ذمہ داری مرد پر ہے لیکن اس کے باوجود حالات و واقعات کی مناسبت سے اگر یہ ذمہ داری عورت پر آجاتی ہے تو اسلام نے اس کو ممنوع قرار نہیں دیا بلکہ اس کی اجازت دی ہے کہ وہ معاشی جدوجہد کرے۔ ارشاد خداوندی ہے:لِّلرِّجَالِ نَصِيبٌ مِّمَّا اكْتَسَبُواْ وَلِلنِّسَاءِ نَصِيبٌ مِّمَّا اكْتَسَبْنَ وَاسْأَلُواْ اللّهَ مِن فَضْلِهِ(النسآء 4 : 32)
’’مردوں کے لئے اس میں سے حصہ ہے جو انہوں نے کمایا اور عورتوں کے لئے اس میں سے حصہ ہے جو انہوں نے کمایا اور اللہ سے اس کا فضل مانگا کرو‘‘
اس سے یہ ثابت ہوتا ہے کہ اسلام نے عورت کو اس کے فطری دائرۂ عمل میں رکھتے ہوئے اسے عزت و عظمت کا ایسا مقام دیا ہے کہ جس کی بنا پر وہ اپنی مخفی صلاحیتوں کو اجاگر کرتے ہوئے معاشرہ میں اپنا بھرپور کردار ادا کرسکتی ہے اور اپنی معاشی ضروریات کو پورا کرنے کے لئے حتی المقدور جدوجہد کرسکتی ہے۔
اسلام نے عورت کی جدوجہد کو صرف علم و فکر کے میدان تک محدود نہیں رکھا ہے بلکہ اس کی پروازِ عمل کے لئے وسیع تر فضا مہیا کی ہے وہ جس طرح علم و ادب کی راہ میں پیش قدمی کرسکتی ہے اس طرح اس کو مختلف پیشوں کو اپنانے اور بہت سی ملی و اجتماعی خدمات کے انجام دینے کی بھی اجازت دی ہے۔(جاری ہے ۔ قسط اول )

Advertisement

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button