اپر چترالسماجیسیاستکالم نگار

گیس پلانٹ اور نااہل علاقائی قیادت۔

چوبیس دسمبر کو چترال ٹائمز اور چترال ٹوڈے میں ایک خبر لگی۔ خبر انتہائی شاکنگ ہی نہیں تھی بلکہ چترال کی موجودہ نااہل سیاسی قیادت کا منہ بھی چڑا رہی تھی

 

نثار احمد

تلخ و شیریں

 

چوبیس دسمبر کو چترال ٹائمز اور چترال ٹوڈے میں ایک خبر لگی۔ خبر انتہائی شاکنگ ہی نہیں تھی بلکہ چترال کی موجودہ نااہل سیاسی قیادت کا منہ بھی چڑا رہی تھی۔ خبر اسلام آباد میں بیٹھے فیصلہ سازوں کے سامنے چترالی قوم کی وقعت و حیثیت بھی بتا رہی تھی۔ اس خبر میں چترال کی ترقی کے ایک شاندار منصوبے کو ادھیڑنے اور جڑ سے اکھاڑ پھینکنے کے بارے میں بتایا گیا تھا۔ خبر میں چترال کو سستی گیس فراہم کرنے کے زیرِ تعمیر منصوبے کی بیخ کنی کا ذکر تھا۔ اس بہترین منصوبے کو نوچ کھانے والوں سے بھی زیادہ حیرت اس بات پر ہو رہی ہے کہ آج ٹھیک دس دن گزرنے کے باوجود کسی سیاسی لیڈر نے اس علاقائی نقصان پر زبان کھولنے کی زحمت فرمائی اور نہ ہی کسی سماجی لیڈر نے۔ منتخب نمائندہ گان نے اس پر واویلا کیا اور نہ ہی حکومتی پارٹی کے لیڈروں نے۔ حالانکہ ہمارے ہاں اسٹیج پر چڑھ کر تین چار جملہ بولنے والا ہر سیاسی اداکار بزعم خویش اپنے آپ کو اونچے لیول کا توپ سیاسی لیڈر بھی سمجھتا ہے اور سماجی رہنما بھی۔۔ یہ الگ بات ہے کہ سماج کی لیڈر شپ کا دم بھرنے والے ان لیڈرز "نما” کو سماج کے مسائل و مصائب کا سرے سے ادراک ہی نہیں ۔ یوں مذکورہ خبر سوشل میڈیا پر موضوع ِ بحث بنی اور نہ ہی چترال کے دانشوروں کی توجہ اپنی جانب مبذول کر سکی۔


چترال کے آنلائن اخبارات میں شائع ہونے والی اس خبر کے مطابق اقتصادی رابطہ کمیٹی کی میٹنگ میں ضلع چترال کے تین مقامات چترال ٹاؤن، ایون اور دروش میں ایل این جی ائرمیکس پراجیکٹس کو ختم کرنے کا فیصلہ کر لیا گیا۔ وفاقی وزیر خزانہ عبد الحفیظ شیخ کی زیر ِصدارت منعقد ہونے والے اجلاس میں سستی گیس کی فراہمی کے ان منصوبہ جات کو ختم کرنے کے علاوہ ان کے لئے خرید شدہ اراضی اور سازو سامان کو شفاف طریقے سے فروخت کرنے کی بھی ہدایت کی گئی۔


پراجیکٹ لانا اتنا آسان نہیں ہوتا کہ بیک جنبشِ قلم اسے استرداد کی بالٹی میں پھینکا جائے۔ایک پراجیکٹ کو مختلف مشکل مراحل سے گزار کر گراؤنڈ تک لانے کے لئے کتنے بابڑ بیلنے پڑتے ہیں وہی لوگ جانیں جو اس پراسس سے درک و واقفیت رکھتے ہیں۔ پراجیکٹ لانا بچہ جَن کر اس کی پرورش کے مترادف ہوتا ہے۔ ایک بڑے پراجیکٹ کے لئے کئی کئی محکموں کے دفترات کی خاک ہی نہیں چھاننا پڑتی بلکہ پراجیکٹ کے لئے مختلف محکموں کے کارپردازوں کو قائل بھی کرنا پڑتا ہے۔

اس گیس پلانٹ پراجیکٹ کو جڑ سے اکھاڑ پھینکنے پر پراجیکٹ لانے والے اُس وقت کے ایم این اے شہزادہ افتخار بھی نہایت کُڑے اور منقبض ہوئے ہوں گے۔ ظاہر ہے اس پراجیکٹ کے لئے مختلف دفترات کے دسیوں نہیں، سینکڑوں چکر شہزادہ صاحب کے لگے تھے کسی اور کے نہیں۔ انہوں نے جان توڑ محنت کے بعد پراجیکٹ منظور ہی نہیں کروایا تھا بلکہ مختلف پراسس سے گزار کر فائنل راؤنڈ میں بھی پہنچایا تھا۔ اس کے لئے زمینیں بھی خریدی جا چُکی تھیں اور پلانٹس بھی۔ پلانٹس کی تنصیب اور گیس کی ترسیل کا کام باقی تھا۔ ایون بروز کے لئے بروز ہائی سکول کے متّصل زمین خریدی گئی ہے۔ چترال ٹاؤن کے پلانٹ کے لئے سنگور کے مقام پر جبکہ دروش والے کے لئے کے زمین مرکز آباد کے قریب پرچیز کی جاچکی تھی۔ چترال ٹاؤن والا پلانٹ جغور سے لے کر کاری اور سین تک کے علاقے کو کور کرتا۔ گمبد (بروز) والے پلانٹ سے ایون اور بروز کے جملہ دیہات گیس یاب ہوتے۔ دروش والا پلانٹ دروش کے تمام دیہات کے لئے کافی ہوتا۔ ان پلانٹس کی کامیابی کے بعد دوسرے مرحلے میں تورکھو، لٹکوہ ، بونی اور مستوج کو گیس کی فراہمی کی جاتی۔ یوں پورے چترال کو اس دائرے میں لایا جاتا۔


چترال کے لئے گیس پلانٹس کی اہمیت اس لئے بھی زیادہ ہے کہ یہاں ایندھن کا سارا دارومدار لکڑی پر ہے۔ بے دریغ لکڑی جلائے بغیر گھریلو ضروریات کی تکمیل ناممکن ہے۔ جس برق رفتاری کے ساتھ چترال کے جنگلات سے بھرے ہوئے پہاڑوں کو درختوں سے خالی کیا جا رہا ہے اگر اس کے آگے بند باندھنے کی کوئی سبیل نہیں نکالی گئی تو چند سالوں کے بعد ہم درختوں سے یکسر خالی فلک بوس پہاڑ اپنے بچوں کو دکھا کر بتایا کریں گے کہ کبھی یہاں بھی گھنے جنگلات ہوتے تھے۔


چترال کے جنگلات کی بے تحاشا کٹائی سے متعلق مواد ڈھونڈتے کھوجتے دروش سے تعلق رکھنے والے ایک سیاسی کارکن کی بنا ہوئی ویڈیو اُس کی وال پر دیکھی۔ ویڈیو میں بتایا اور دکھایا جا رہا ہے کہ شاہ بلوط سے لدی ہوئی ایک سو پچاس چھوٹی بڑی گاڑیاں قطار میں کھڑی ہیں۔ بڑے درخت تو پھر بھی بڑے درخت،ان میں بہت سارے چھوٹے چھوٹے درخت بھی کاٹے گئے ہیں جن سے کل دو من لکڑی بمشکل برآمد ہوئی ہے۔ اس سے ہم اندازہ کر سکتے ہیں کہ کس بری طرح سے درختوں کی کٹائی جاری ہے اسی واضح رہے کہ یہ گاڑیاں صرف ارندو ریجن کے جنگلات کی تھیں۔


ناطقہ سر بگریباں ہے کہ کیا کہیے ایک طرف شجرکاری مہم کے نام پر پودے لگوانے کے منصوبے پر اربوں روپے جھونکے جا رہے ہیں اور دوسری طرف ناپید ہوتےجنگلات کو بچانے میں حکومت عملاً آمادہ نظر نہیں آتی۔ اس مسئلے کو حساس مسئلہ سمجھا جا رہا ہے اور نہ ہی اس کے لئے کوئی تدبیر کی جا رہی ہے۔ حالانکہ چترالیوں کے لئے یہ موت و حیات کا مسئلہ ہے۔ مستقبل میں سیلابی ریلوں سے بچاؤ جنگلات کی بدولت ہی ممکن ہو سکے گا۔ شجر کاری مہم کے عنوان ملک کے کوہ و دشت کو درختوں سے آباد کرنا اچھی بات ہے تاہم پہلے سے موجود جنگلات کو بچانے سے عملاً پہلو تہی کرنا شجر کاری مہم پر صرف سوالات ہی نہیں کھڑے کر رہا ہے بلکہ اس پورے عمل کو مشکوک بھی بنا رہا ہے۔ معدومیت کے خطرے سے دوچار جنگلات کو بچانے کی واحد صورت یہی ہے کہ گیس متبادل ایندھن کے طور پر نسبتاً کم قیمت میں دستیاب ہو۔ اگر گیس لکڑی سے کم قیمت پر فراہم ہو ہو گی تو کسی کو پاگل کتے نے نہیں کاٹا ہے کہ وہ سستی گیس کو چھوڑ کر جلانے کے لئے لکڑی استعمال کرے۔ شجرکاری مہم کے لئے پیسے مختص کرنا قابلِ تعریف ہے لیکن پہلے سے موجود درختوں کو بے تحاشا کٹائی سے محفوظ کرنا اس سے بھی زیادہ قابلِ مدح کام ہے۔
اب بھی وقت ہے کہ ہمارے منتخب نمائندے اور حکومتی جماعت کے سیاسی لیڈر خواب ِ خرگوش سے بیدار ہو کر ان منصوبوں کو بچانے کے لئے ہاتھ پیر ماریں۔ اگر حکومتی سطح پر شنوائی نہیں ہوتی تو عدالت کا دروازہ کھٹکھٹائیں۔ کب تک ہمارے علاقائی مفاد کے منصوبے منافقانہ گندی سیاست کی بھینٹ چڑھتے رہیں گے؟؟؟ سوال تو بنتا ہے کیا ان منصوبوں کو بچانے کے لئے لب کُشائی سے گریز صرف اس وجہ سے کیا جا رہا کہ یہ سابق ایم این اے کے منصوبے تھے؟؟؟اگر ایسا ہے تو یہ چترالی قوم کے ساتھ بہت بڑا ظلم ہے۔۔
ظالموں کو تاریخ معاف نہیں کرتی۔
مکرر عرض ہے کہ جنگلات کو ختم ہونے سے محفوظ رکھنے اور دیہات کو سیلاب برد ہونے سے بچانے کے لئے گیس پراجیکٹس کی مد میں چند لاکھ کی سبسڈی مہنگا سودا ہرگز نہیں ہے۔۔۔۔۔

Advertisement

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button