تعلیمخبریں

قراقرم یونیورسٹی ہراسانی: ’تینوں کیسز میں ایک ہی آدمی ملوث

گلگت بلتستان میں واقع قراقرم انٹرنیشنل یونیورسٹی میں گذشتہ ماہ تین طالبات نے انتظامیہ کے ایک عہدیدار پر چھیڑنے، غلط انداز سے چھونے اور ہراساں کرنے کا الزام عائد کیا تھا، تاہم متاثرین پر کیسز واپس لینے کے لیے دباؤ ڈالا جارہا ہے

سید اولاد الدین شاہ

(گلگت بلتستان-انڈپینڈنٹ اردو )

انڈپینڈنٹ اردو کے مطابق  پہلا کیس 17 نومبر 2020 کو اکنامکس ڈیپارٹمنٹ کی ایک طالبہ کی جانب سے رپورٹ کیا گیا تھا، جنہوں نے انتظامیہ کے ایک عہدیدار پر چھیڑنے، غلط انداز سے چھونے اور ہراساں کرنے کا الزام عائد کیا تھا۔

دیگر دو کیسز 23 اور 24 نومبر کو رپورٹ ہوئے اور ان میں بھی مذکورہ عہدیدار پر اسی قسم کے الزام عائد کیے گئے تھے۔

کے آئی یو ہنزہ سٹوڈنٹ فیڈریشن کے سابق صدر واجد علی، جو ان کیسز کو دیکھ رہے ہیں، نے انڈپینڈنٹ اردو کو بتایا: ‘تینوں کیسز میں انتظامیہ کا ایک ہی آدمی ملوث ہے، جو سکالر شپ سے متعلق معاملات کو ڈیل کرتا ہے۔’

انہوں نے مزید بتایا: ‘جب پہلا کیس رپورٹ ہوا تھا۔ اس واقعے کے بعد ملزم اور یونیورسٹی کے طلبہ کے درمیان ہاتھاپائی ہوئی تھی، جس پر دو طلبہ کو گرفتار کرلیا گیا تھا اور وہ دونوں ابھی تک پولیس کی تحویل میں ہیں، لیکن جس عہدیدار پر طالبات کو ہراساں کرنے کا الزام ہے، ابھی تک یونیورسٹی میں اپنے عہدے پر کام کر رہے ہیں جبکہ یونیورسٹی انتظامیہ کی طرف سے رپورٹ کو منظر عام پر بھی نہیں لایا جا رہا۔’

یونیورسٹی کے ایک طالب علم نے نام نہ بتانے کی شرط پر انڈپینڈنٹ اردو کو بتایا: ‘گذشتہ ماہ جب ہراسانی کا پہلا کیس رپورٹ ہوا تھا تو طلبہ اور ملزم کے درمیان ہاتھاپائی ہوئی تھی، جس پر ہمارے دو ساتھیوں کو گرفتار کرلیا گیا اور وہ تاحال پولیس کی تحویل میں ہیں۔ دوسری جانب ملزم نے باہر سے 15 سے 20 لڑکوں کو بلا کر یونیورسٹی کے طلبہ پر حملہ کروایا تھا، ان میں سے صرف ایک کو گرفتار کیا گیا ہے۔ باقی سب آزاد گھوم رہے ہیں۔’

مذکورہ طالب علم نے مزید بتایا: ‘ان کیسز کو ختم کرنے کے لیے مختلف حربے استعمال کیے جارہے ہیں۔ اب کیسز بھی بڑھ کر ایک سے تین ہو گئے ہیں۔’

قراقرم انٹرنیشنل یونیورسٹی کے ایک پروفیسر نے بھی نام ظاہر نہ کرنے کی شرط پر انڈپینڈنٹ اردو کو اس واقعے کی تصدیق کی۔ ساتھ ہی انہوں نے وضاحت کی کہ ‘سوشل میڈیا پر یہ خبریں گردش کر رہی ہیں کہ کسی پروفیسر کے خلاف شکایات درج ہوئی ہیں، تاہم یہ انتظامیہ کا عہدیدار ہے اور سکالرشپ سے متعلق معاملات کو ڈیل کرتا ہے۔

ان کا مزید کہنا تھا کہ اس کیس کی مکمل اور جامع تحقیقات ہونی چاہییں۔ ‘شک کا فائدہ کوئی نہ اٹھائے، ایسے کاموں سے ادارے کے نام پر داغ لگ جاتا ہے، جو کسی کے مفاد میں نہیں۔ ‘

دوسری جانب قراقرم انٹرنیشنل یونیورسٹی کے ڈائریکٹر پبلک ریلیشن میر تعظیم اختر نے بھی یونیورسٹی کے ایک عہدیدار کے خلاف تین طالبات کی جانب سے تین کیسز رجسٹر کیے جانے کی تصدیق کی۔

انہوں نے مزید بتایا کہ وائس چانسلر کے حکم پر ڈاکٹر منظور علی کی سربراہی میں ایک کمیٹی تشکیل دی گئی تھی۔ تینوں متاثرہ طالبات بھی کمیٹی کے سامنے پیش ہوئی تھیں، کمیٹی نے اپنی فائنڈنگ وائس چانسلر کو بھیج دی ہیں۔ اب جنوری میں گورننگ باڈی کی میٹنگ ہے اور اس رپورٹ کو اس میٹنگ میں پیش کیا جانے کا امکان ہے۔

انہوں نے مزید بتایا کہ ‘اس کیس میں جس عہدیدار پر جنسی ہراسانی کا الزام عائد کیا گیا ہے، وہ اپنی ڈیوٹی سر انجام دے رہے ہیں لیکن ان کا اس ڈپارٹمنٹ سے ٹرانسفر کردیا گیا ہے۔ جب ان کیسز کا فیصلہ ہوگا، تب دیکھا جائے گا۔’

ذرائع کے مطابق 2017 میں بھی ایسا ہی کیس رونما ہوا تھا، لیکن اس پر کوئی ایکشن نہیں لیا گیا تھا، تاہم اس بار پوری یونیورسٹی کے طلبہ و طالبات سراپا احتجاج ہیں

Advertisement

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button