نیا اضافہ

بیت الخلائی مخلوق


خالد محمود ساحر

امتحانات کی تیاری کیلئیے چار کمروں پر مشتمل کرایے کی عمارت میں رہتے تھے. دو کمروں میں پٹھان تھے جو صبح کام کو نکلتے اور شام کو لوٹتے, ایک میں ہم چار لڑکے رہتے تھے,دو بارہویں جماعت کے اور دو گیارہویں کے.چوتھے کمرے میں چھتراری ستار نواز و گویا رہتا تھا جس کے کمرے میں آئے روز موسیقی کی محفلیں سجتی.
ہم اپنے کمرے میں بیٹھ کر سنتے اور جب کوئی اچھا سا گانا بجتا تو سیدھا جاکر محفل میں کود پڑتے.
امتحانات کے دن قریب آنے لگے تو ستار کی آواز کانوں میں چبنے لگی, ڈھول دمامے کی آواز سن کر خون کھول اٹھتا اور جی کرتا کہ جاکر دمامہ اسکے سر پر دے مارے لیکن ستارنواز سے بے تکلفانہ دوستی تھی جو آڑھے آجاتی اور چپ چاپ کانوں میں روئی ڈال کر کتاب ہاتھ میں لئے بیٹھ جاتے.
امتحانات کے دن شروع ہوئے تو پابندیاں لگنا شروع ہوگئیں, باہر جانے پر پابندی, گھومنے پھرنے پر پابندی, سیر سپاٹے پر پابندی, کھیل کود پر پابندی عرض زندگی کمرے تک محدود رہ گئی.
پابندیوں کے بوجھ تلے دب گئے تو بوجھ ہلکا کرنے کیلئے ستار نواز کے "محفل موسیقی”پر پابندی لگادی اور ہفتے میں ایک دن محفل سجانے کو کہا تو ستار نواز نے شرط کے ساتھ کہ اس محفل میں ہم بھی شریک ہونگے, ہماری بات مان لی.
ہمارے کمرے کے ساتھ ہی ستارنواز کا کمرہ تھا اور "بیت الخلاء ” مشرکہ تھا جس کی حالت کسی گنجان آباد شہر کے "پبلک واش” روم جیسی تھی.
بیت الخلا کی صفائی ایک دوسرے کے ضد میں تقریبا دو مہینے میں ایک بار یا تو ستار نواز کرتا یا ہم کرتے.
ہر روز عصر کی نماز کے بعد گھومنے جانا ہمارے روزمرہ کا مشعلہ تھا لیکن امتحانات نے اس پر بھی پابندی لگادی.
ہم سوچتے تھے کہ "انشاءاللہ” امتحانات ختم ہونگے اور دل کھول کر گھومیں گے سیر سپاٹے کریں گے.
فراغت کا منٹ تک میسر نہیں تھا نہ فلم دیکھ سکتے تھے نہ کرکٹ کھیل سکتے تھے اور نہ گانا سن سکتے تھے.
میری حالت اس مقرر جیسی تھی جسے موضوع کا علم نہ ہو اور وقت تقریر آن پڑا ہو.
ایک عجیب سی ترنم کے ساتھ ” سید محمد جعفری” کی نظم "امتحان” کے کچھ بند گنگناتا,

پہلے تھی وہ شوخیاں جو آفت جان ہوگئیں
لیکن اب نقش و نگار طاق نسیاں ہوگئیں
بند ہے کمرے کے اندر گردش لیل النہار
کیا خبر آئی خزاں کب, کب گئی فصل بہار
کیا خبر تھی اسطرح جی کا زیاں ہوجائے گا
یعنی یہ پہلے ہی نذر امتحان ہوجائے گا

نظم کی ایک بند ذہن میں آتے ہی چونک پڑتا اور سیدھا اٹھ کر بیت الخلاء چلا جاتا,

وقت رٹنے کے لئے کم رہ گیا زیادہ ہے کام
سال بھر جن کو نہ دیکھا وہ خلاصے نیک نام

ان دنوں” جی” کو سکوں صرف بیت الخلاء میں ہی میسر تھی.
منٹوں بیت الخلا میں بیٹھتا,ڈیٹ شیٹ کے مطابق "ٹائم ٹیبل” سیٹ کرتا
"فلاں سبجکٹ کیلئے تین دن کا گیپ ہے, پہلے دن آرام سے چار چیپٹر پڑھ لونگا, دوسرے دن پھر چار چیپٹر, ٹوٹل نو چیپٹر ہیں,آخری دن صبح فجر کے بعد آخری چیپٹر پڑھ لونگا اور پھر شروع سے رویژن……. ٹینشن لینے کی کیا ضرورت ہے.”
ایک بہترین اسکیم بنا کر بیت الخلا سے باہر نکلتا اور کمرے میں جاکر کتاب ہاتھ…….
گیپ کا پہلا دن گزر جاتا دوسرا دن بھی غروب ہوجاتا اور تیاری پہلے چیپٹر کی بھی نہیں ہوپاتی.پھر نیا اسکیم بنانے بیت الخلاء کی طرف….
"پورے چوبیس گھنٹے پڑے ہیں اور صرف آٹھ چیپٹر کی تیاری کرنی ہے. دو گھنٹے ہر چیپٹر کی تیاری کے لئے کافی ہے باقی پانچ گھنٹے سونے کیلئے. اس میں مشکل ہی کیا ہے”
میرے لوٹتے ہی دوسرا لڑکا منہ لٹکائے بیت الخلاء میں گھس پڑتا اور چند منٹوں بعد مسکرائے کمرے میں داخل ہوجاتا اور اپنے نئے اسکیم کے بارے میں سب کو بتاتا.
پرچے کا دن آن پڑتا اور تیاری مشکل سے چار پانچ چیپٹر کی ہو پائی.
بیت الخلا سے کمرہ اور کمرے سے بیٹ الخلاء کا یہ چکر باری باری امتحانات ختم ہونے تک جاری رہا.
ہر سبجکٹ کی تیاری کیلئے تین اسکیم بناتے, پہلا اسکیم آسان ہوتا جس میں کم محنت درکار ہوتی, دوسرا اسکیم اس سے بھی آسان اور تیسرا "سمارٹ ورک”
بیت الخلاء امتحانات کے دنوں میں راحت کا ساماں ثابت ہوا.
آج ہم پھر امتحانات سے دوچار ہیں,دوبارہ پابندیاں نافذ ہیں, لوگ گھروں میں محصور ہیں.
ایک خلائی مخلوق نے جینا مشکل کر رکھا ہے.
ہم اس امتحان کیلئے بالکل تیار نہیں تھے نہ ذہنی طور پر اور نہ ہی عملی طور پر.
اس امتحان سے نمٹنے کیلئے بھی ہمیں خود کو گھروں تک محدود رکھنا ہوگا, پابندیاں قبول کرنی ہونگی اور ہر اس تدبیر پر عمل پیرا ہونا ہوگا جو ہمیں اس امتحان میں کامیابی دلا سکتی ہے.
اس "خلائی مخلوق” کے خلاف پہلا ڈھال "بیت الخلاء” ہی ہے.
اس سے نمٹنے کیلئے صفائی ستھرائی اولین شرط ہے.
گھروں کی صفائی کے ساتھ بیت الخلاء کی صفائی سب سے ضروری ہے.
جو لوگ اپنے گھروں میں ہیں وہ محفوظ ہیں وہ ان تدابیر پر آسانی سے عمل کرسکتے ہیں لیکن جو لوگ باہر سے آرہے ہیں اور مختلف قرنطینہ سنٹروں میں ٹھہرایے جارہے ہیں ان کی حفاظت سب سے ضروری ہے.
ان میں س ہر کوئی اپنی علم اور بساط کے مطابق احتاطی تدابیر پر عمل کرتا ہے لیکن دوران سفر ان کو بیماری لگنے کا شبہ ذیادہ ہے.
لوئیر چترال میں ذیادہ تر ہوٹلوں کو قرنطینہ سنٹر بنایا گیا ہے.ہوٹلوں کے کمرے محدود اور ہر کمرے سے منسلک بیت الخلاء ہوتے ہیں اور احتیاطی تدابیر پر آسانی سے عمل کیا جاسکتا ہے.
اپر چترال میں سرکاری کالجوں,اسکولوں اور ہاسٹلوں کو قرنطینہ سنٹر بنایا گیا ہے جس میں کمرے ذیادہ اور بیت الخلاء مشترکہ اور کم ہوتے ہیں. ایسی صورتحال میں اگر بیت الخلا کی صفائی اور دیگر احتیاطی تدابیر پر عمل میں کوتاہی کی گئی تو وبا کے پھیلنے کا خدشہ اور زیادہ ہوگا اور بیت الخلاء "راحت جان” نہیں "آفت جان” ثابت ہوگا.

Advertisement

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button