کورونا وائرس

کرونا, گلگت, ہنزہ اور دیگر دنیا

تحریر ؛ نور شمس الدین

26 فروری سے گلگت بلتستان میں کرونا کرونا کھیلا جارہا ہے. 300 کے قریب کیسز ہیں. جن میں سے ایکٹیو کیسز 100 سے بھی کم رہ گئے ہیں.

گلگت بلتستان کے دس میں سے میں دو اضلاع غذر اور ہنزہ اب تک کرونا سے محفوظ ہیں.

غذر کا ذکر پھر کبھی فلحال گلگت بلتستان کے ماتھے کے جھومر ہنزہ کے اپنائے ہوئے طرہقہ کار کو سمجھتے ہیں.

ہنزہ کو کرونا فری بنائے رکھنے کی وجہ وہاں کی کمیونٹی, ادارہ جات,انتظامیہ اور سول سوسائٹی کا ایک پیج پر ہونا ہے.

ہنزہ میں داخل ہونے والا اعلٰی عہدیدار, کوئی "بڑا” یا کسی "بڑے” کا رشتہ دار, کوئی سیاسی رہنما یا ان کا چیلا, کسی بیوروکریٹ کا سفارشی , دیہاڑی دار مزدور, موم بتی یا اگر بتی مافیا کو کوئی ممبر, کسی این جی او کاجینٹلمین العرض کوئی بھی بعیر پروٹوکول فالو کئے اور موجود والنڑیرز اور اہلکاروں کی ہدایات کو پامال کرتے ہوئے حسین آباد پُل جو ہنزہ کا گیٹ وے ہے کراس نہیں کرسکتا.

ہنزہ سے باہر نکلنے کے لئے ضلعی حکومت سے اجازت نامہ لینا پڑتا ہے اور اپنے محلے سے دوسرے محلے میں جانے سے پہلے آپ کو "کمیونٹی ایمرجنسی رسپانس ٹیم” کے اہلکاروں کی اجازت چاہیے ہوتی ہے جو محلے کے ہر نکڑ پر 24 گھنٹے کھڑے ہوکر انتہائی مجبوری میں باہر نکلنے والوں کو سنیٹائز کرتے ہیں اور ماسک پہناکر نہایت محدود مدت کے لئے اجازت دیتے ہیں.

اَپر ہنزہ یعنی گجال میں تو دکاندار اشیاء ضروریہ تک آپ کی فرمائش کے مطابق کمیونٹی ایمرجنسی ریسپانس ٹیم کی اہلکاروں کی مدد سے آپ کے دروازے تک پہنچانے کا ذمہ دار ہے. آپ چاہے کوئی بھی ہو گجال سے باہر نکل سکتے ہیں نہ داخل ہوسکتے ہیں. صرف گجال ہی کے وہ باشندے جو تحصیل سے باہر ہیں وہ اپنے گھروں کو اسکتے ہیں.

مگر ٹھیرے انے سے پہلے آپ کو کرونا ٹسٹ کرنا ہوگا. اور اس کا بھی ایک طریقہ کار موجود ہے.

مثلا کراچی میں موجود گجالی سول سوسائٹی اداروں کے ساتھ خود کر رجسٹر کروایئں گے اور اپنی باری پر کراچی کے تین جگہوں میں سے اپنے نزدیکی جگہے میں جاکر ٹسٹ کروایئں گے. ٹسٹ منفی انے والوں کو بس کے زریعے حفاظتی اقدامات کو فالو کرتے ہوئے ذمہ دار والنٹیر اور ہیلتھ پروفیشنلز کی صحبت میں گجال پہنچادیا جاتا ہے.

یوں لوگ گھروں کو خوشیان لیکر لوٹیں گے کرونا نہیں.

ہنزہ میں ایس او پیز نہ گنیش جامع مسجد کا امام دیتا ہے نہ ہنزہ اسماعیلی کونسل کا صدر. بلکہ دونوں نے ملکر عالمی ادارہ صحت اور مستند ڈاکٹروں کی دئی ہوئی ہدایات کو اپنے گلے کا ہار بناچکے ہیں. پوری ہنزہ کمیونٹی ایک بات پر متفق ہے کہ اس وبا سے نکلنے کے لئے طبی اصولوں کی پیروی پہلے نمبر پر ہوگی باقی معاملات اس کے بعد. بازار اور عبادت گاہیں محدود بلکہ مکمل طور پر بند ہیں ذکر و اذکار کے محافل اور عبادات گھروں پر ہوتے ہیں تو گھروں سے باہر سوشیل ڈسٹنسنگ, ماسک کا استعمال اور انسانی رویے لازم اور صد فیصد لاگو…

جو ہنزہ گئے ہیں وہ جانتے ہیں کہ دریا کے اُس پار نگر ہے اور نگر گلگت کا سب سے ذیادہ متاثر علاقہ ہے. مگر دریا کے اِس پار ہنزہ بلکل محفوظ. اب یہ وہ والی بات نہیں کہ "ہم کرونا فری اس لئے ہیں کہ ٹسٹ ہی نہیں کرتے” ?

علاقے ایویں ترقی نہیں کرتے عوام کو باشعور , اداروں کو مظبوط اور انتظامیہ کو ذمہ دار ہونا ہوتا ہے.

کسی نے کچھ سیکھنا ہو تو سیکھ لے. نہ سیکھنا ہے تو روتے رہیں اور مرتے رہیں. تاریخ میں کئی اقوام وباؤں کی نذر ہوکر معدوم ہوچکے ہیں چند اور سہی.

#وبا_کے_دنوں_کا_ہنزہ

Advertisement

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button