صحتکورونا وائرس

چترال میں کورونا وائریس کی روک تھام کیلئے انتظامیہ کی جانب سے قرنطینہ مراکز میں ناقص انتظامات پر ایم این اے کی برہمی۔

چترال(گل حماد فاروقی) چترال سے منتحب روکن قومی اسمبلی مولانا عبد الاکبر چترالی نے بالائی چترال کا دورہ کرکے وہاں قرنطینہ مراکز انتظامیہ کی جانب سے ناقص انتظامات پر برہمی کا اظہار کیا۔ ایک اخباری کانفرنس سے اظہار حیال کرتے ہوئے مولانا چترالی نے کہا کہ بالائی چترال میں جو لوگ باہر سے آتے ہیں ان کیلئے زنانہ ڈگری کالج اور دیگر سرکاری عمارتوں میں قرنطینہ مرکز کے نام پر اصطبل حانہ کھول رکھا ہے۔ انہوں نے کہا قرنطینہ کا مطلب ایک کمرے میں ایک فرد ہونا چاہئے اور اگر زیادہ لوگ ہو تو ان کے درمیان چھ فٹ کا فاصلہ ہو مگر جہاں ایک ہی کمرے میں درجنوں لوگ جمع کئے جائے تو اس کا مطلب ہے کہ ہم خود ہی کورونا وائیریس کو دعوت دیتے ہیں۔
انہوں نے کہا کہ باہر سے آنے والے لوگوں کو گزشتہ رات کھلے آسمان تلے رات گزارنے پر مجبور کئے ہیں ان کیلئے سر چھپانے کا بھی بندوبست نہیں کیا گیا تھا۔جو سراسر حفظان صحت کے اصولوں کے حلاف ہے۔
اس موقع پر انہوں نے کہا کہ ضلع اپر چترال میں بونی کے مقام پر ہسپتال ابھی تک تحصیل ہیڈ کوارٹرز کے درجے میں ہے اسے فوری طور پر ڈسٹرکٹ ہیڈ کواٹرز کا درجہ دینا چاہئے انہوں نے محکمہ صحت کے عملہ کو حراج تحسین پیش کیا کہ ان کے پاس ضروری سامان نہ ہونے کے باوجود اپنی زندگی داؤ پر لگاکر مشتبہ مریضوں کا معائنہ کررہے ہیں۔ان کے پاس کسی قسم کی حفاظتی انتظامات نہیں ہے۔ چترال ایک پسماندہ علاقہ ہے اگر یہاں خدانحواستہ کورونا کا وائریس پہنچ گیا تو یہاں تباہی مچے گی کیونکہ یہاں سے مریض کو پشاور پہنچانے میں سولہ گھنٹے لگتے ہیں۔ چترال کے بالائی علاقے کے ہسپتال کو فوری طور پر ایمبولنس فراہم
کئے گئے۔ انہوں نے صوبائی حکومت سے مطالبہ کیا کہ ضلع اپر چترال کیلئے فوری طور پر چار کروڑ روپے ریلیز کیا جائے اور لوئر چترال کیلئے پانچ کروڑ روپے کا گرانٹ دیا جائے تاکہ ہم اس وباء پر قابو پاسکے۔انہوں نے بعد ازاں ڈسٹرکٹ ہیڈ کوارٹرز ہسپتال لوئیر چترال کا دورہ بھی کیا۔ایم این اے چترالی نے میڈیکل سپرنٹنڈنٹ کے دفتر جاکر ان سے ہسپتال کے بارے میں ان کی تیاری اور سامان کی بریفنگ لی۔
ہسپتال کے ایم ایس نے بتایا کہ ہمارے پاس جو چار ونٹی لیٹرز تھے وہ ابھی تک چلائے نہیں گئے ہیں تاہم ان کیلئے پشاور سے انجنرنگ سٹاف آیا ہوا ہے امید ہے ان کو آج چلائیں گے۔ تاہم میں نے تین ہزار حفاظتی سامان کا مطالبہ کیا تھا جس میں صرف ایک سو مجھے بھجوائے گئے۔ ہسپتال میں ہم نے ایک آئی سولیشن وارڈ محتص کیا ہے جس میں آٹھ ڈاکٹرز، آٹھ نرسز اور آٹھ کلاس فور تین شفٹوں میں کام کریں گے جو سامان صوبائی حکومت نے بھیجا ہے وہ ایک ہی دن میں حتم ہوتا ہے کیونکہ کورونا وائریس کی علاج کیلئے جو ڈاکٹر، نرس یا سٹاف محفوظ لباس پہنتا ہے اسے اسی دن تلف کیا جاتا ہے دوبارہ استعمال نہیں کیا جاتا۔
انہوں نے کہا کہ عالمی ادارہ صحت کے ایک محتاط اندازے کے مطابق کورونا وائریس سے چالیس فی صد آبادی متاثر ہونے کا حدشہ ہے اس کا مطلب ہے کہ چترال میں اگر خدا نحواستہ کورونا پہنچ جاتا ہے تو اس سے دو لاکھ آبادی متاثر ہونے کا حطرہ ہے۔ انہوں نے کہا کہ انتہائی نگہداشت یونٹ میں جو ڈاکٹر کام کرتے ہیں ان کی دو سال ٹریننگ ہوتی ہے اس کے بعد وہ ونٹی لیٹرز مشین چلا سکتے ہیں۔ اس موقع پر رکن قومی اسمبلی مولانا چترالی نے صوبائی حکومت سے پرزور مطالبہ کیا کہ چترال جیسے پسماندہ اضلاع کو ترجیحی بنیادوں پر کورونا وائریس کی روک تھام کیلئے ضروری سامان اور مشنری فراہم کیا جائے تاکہ اس وباء کی ممکنہ حطرے کو بروقت قابو کیا جاسکے ورنہ ایک بار یہ بیماری اگر یہاں داحل ہوئی تو اس سے بچنا بہت مشکل ہوگا اور پورے چترال کو لپیٹ میں گا۔

Advertisement

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button